کپتان صاحب اور قربانی کی نانی کا معرکہ


سیالکوٹ کی زندگی میں محاذ جنگ کی تکالیف نہ تھیں لیکن جنگ کے تکلفات تمام تر موجود تھے۔ مثلاً بغیر وردی کے گھر سے بار نہ نکل سکتے تھے۔ کلب جاؤ تو وردی میں اور بازار جاؤ تو وردی۔ سفید شریفانہ کپڑے پہن کر باہر نکلنے کو دل ترس گیا تھا۔ چنانچہ کئی مرتبہ رات کو گھر کی تنہائی میں سوٹ پہنا، آئینے میں دیکھا، دوحسرت کی آہیں بھریں۔ سوٹ اتار کر صندوق میں بند کر دیا اور منہ بسور کر پھر خاکی وردی پہن لی۔ گویا اپنی کپتانی کا اشتہار زیب تن کر لیا۔

زندگی کی بے شمار چھوٹی چھوٹی خوشیاں صرف گمنامی میں ہی میسر آ سکتی ہیں۔ مثلاً چوک میں کھڑے ہو کر سلاجیت بیچنے والے کا لیکچر سننا اور علی الا علان نسخہ بنوانا، بندریا کا ناچ دیکھنا اور کھلکھلا کر ہنسنا، استاد گام کی دکان سے سربازار کباب کھانا اور اپنی آسودگی کی تصدیق ایک برہنہ ڈکار سے کرنا، سکینڈل پوائنٹ پر کھڑے ہو کر ڈنکے کی چوٹ دل کی دھڑکن سنا نا اور اور گالی کھا کر بے مزا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوچہء دلدار کے چکر کاٹنا اور شکل و صورت سے یوں دکھائی دینا جیسے خدمت خلق کے لیے مارے پھر رہے ہوں۔

لیکن فوجی یونیفارم پہنی ہو جو کلف سے کڑ کڑارہی ہو اور کپتانی کا آبگینہ شانوں پر اٹھا رکھا ہو تو پہلا کباب کھاتے ہی، پہلی دھڑکتے ہی اور پہلا چکر کاٹتے ہی آبگینہ چور سمجھیں اور اگر کورٹ مارشل کی نوبت آگئی جو ضرور آنی چاہیے تو پھر کپتانی ہی کافور سمجھیں۔ چنانچہ ہم فقط ان خوشیوں کی ہی تمنا کر سکتے تھے جن تک باوردی رسائی ممکن تھی۔ سوائے اس کے کوئی خوشی یا ناخوشی ازخود غریب خانے پر آدستک دے۔

اور کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن ہمارے بنگلے کے صحن میں ایک تانگہ آ کر رکا۔ تانگے میں سامنے کی نشست پر کوچوان کے علاوہ ایک خاصی معمر خاتون سوارتھیں۔ تانگے سے اترے بغیر مجھ سے مخاطب ہوئیں :

” تم ہو نا کپتان؟ :
عرض کیا : ”جی ہاں، ارشاد؟“

اور حیران تھا کہ خدا جانے آج کس بلانے خانہء انوری کو انتخاب کیا ہے۔ بڑی بی نے جواب میں بے تامل پتھر دے مارا :
” تو شرم نہیں آتی؟ اس بچی کا دل توڑنا۔ ۔ ۔“

یہ کہہ کر متحرمہ نے ایک دلسوزسی آہ اور پچھلی سیٹ کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ بچی کو خواب میں بھی نہ دیکھا تھا لیکن اب دیکھا تو ایسی بچی بھی نہ تھی۔ کوئی اٹھارہ سال کا سن۔ شکل کی شریف مگر آنکھوں کی شریر۔ وہی کانونٹ سکول کی آزادی اور خود اعتمادی کی مہر لگی ہوئی۔ خیر، کوئی بھی ہو، ظاہر تھا کہ غلط فہمی کا معاملہ ہے لیکن ادھر بی اماں کی نگاہ غضب میرے جسم و جان کے ساتھ دل وجود و بھی چیر کر پار ہو رہی تھیں۔ چنانچہ میں نے بچی صاحبہ کی خدمت میں خاموش اپیل کی کہ آپ ہی اماں حضور کا مغالطہ دور کر دیں۔

لیکن چھوٹی محترمہ نے جواب میں غیر جانبداری سے مسکرا دیا اور تماشا دیکھنے لگیں۔ بڑی بی نے برسنا جاری رکھا۔
” دو دن سے انتظار کر رہے ہیں، اب آتا ہے۔ یہ ہوتے میں لچھن ہونے والے داما دوں کے؟ کہاں ہے تمہاری امی؟“

تو یہ بات تھی! ہم نے بی اماں سے آنکھ بچا کر بچی کو صاف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پر زو رغیر تحریری احتجاج کیا۔ جواب میں چھوٹی بی نے فقط انگریزی میں شانے سیکڑے اور آسمان کو تکنے لگی۔ گویا کہتی ہو : ”یہ معرفت کا معاملہ ہے مجھے سے مت پوچھ۔ اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی۔“ ہم نے ایک لمحے کے لیے من میں ڈوبنا شروع کیا تو چھوٹی بی نے ہماری سادگی پر ایک ہلکا پھلکا قہقہہ لگا دیا۔ یوں جیسے غلطی سے طبلے پر تھاپ پڑ جائے۔ اس پر بڑی بی چونک پڑیں اور بولیں :

” اری چھو کری تو ہنس رہی ہے : ابھی تو رو رہی تھی۔“
” نانی جان، یہ کیپٹن ظفر نہیں ہیں، کوئی اور ہیں۔“ بچی نے ہنسی کو آدھا روکتے ہوئے کہا۔

” کوئی اور میں؟ پہلے کیو ں نہیں بتایا؟ ہائے میں نے کتنی غلطی کی۔“
بچی بولی : ”کوئی بات نہیں نانی جان، یہ بھی ہنس رہے ہیں۔“

میں ہنس تو نہیں رہا تھا۔ ؛ البتہ ہنسی روکنے کی کوشش ضرور کر رہا تھا۔ نانی جان بولیں : ”بیٹا معاف کرنا، میری نظر کمزور ہے۔“

نانی جان کی نظر بے شک کمزور تھی لیکن آپ کی زبان ماشا اللہ خاصی شہ زور تھی جسے آسانی سے معاف نہیں کیا جا سکتا تھا مگر اب ہم بھی سراغ پا چکے تھے لہٰذا معاف کرنا ہی پڑا۔ اور سراغ یہ تھا کہ یہ خواتین ہمارے دوست ظفر کی منگیتر اور منگیئر کی نانی تھیں اور یہ ڈرامہ ظفر اور ہماری ہونے والی بھابی کی سازش کا نتیجہ تھا۔ ہم نے ظفر کی برات میں شمولیت کی یہ شرط رکھی تھی کہ ہمیں بھابی جان پیشگی دکھائی جائیں۔ سو ہمیں بھابی جان تو دکھا دی گئیں لیکن اس انداز سے کہ ہمارا نانی جان سے بلوہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بے چاری نانی جان کو اس بات کا علم نہ تھا کہ اس ڈرامے میں ان کا کردار محض قربانی کی نانی کا ہے۔
بجنگ آمد سے اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).