یہ بچے بھی بڑے ہوں گے


کیا لکھوں اس تصویر پر، اپنے احساسات اور جذبات کو جملوں کی پائل کیسے پہناوں۔ منظر کو کیسے بیان کرو، الفاظ کے بہتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر بھی بے بس ہوں۔ کاش یہ تصویر اگر کسی مصور کی تخلیق کردہ ہوتی کاش۔ لیکن نہیں حقیقت اور سفاک حقیقت، یہ تصویر ملک اور قوم پر ایک طمانچہ ہیں۔ یہ تصویر ہماری بے بسی کی عکاس ہے۔ یہ تصویر ہماری تفرقوں پر ایک کاری ضرب ہے۔ یہ تصویر جرائم کے کھوج سے بیزار لوگوں پر ایک عبرتناک نشان ہیں۔

یہ وہی تصویر ہیں جس میں ایک بچہ اور دو بچیاں نظر آرہی ہے جنہوں نے وہ دیکھا جس کو چاہتے ہوئے بھی میں بیان نہیں کرسکتا۔ یاد رہے بچے ki عمر محض سات سال ایک بچی کا عمر محض چھ سال اور تیسری صرف چار سال کی بچی تھی۔ مارنے والا عجیب شاہکار تھا جن کے سینے میں دل نامی کوئی چیز کا میں تصور ہی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ بچوں کے سامنے ان کے والدین کو بے دردی سے قتل کرنا اور پھر وہ بچیں جو بے بس ہوں جو موت اور زندگی سے لاعلم ہو، یہ کمال ایک مہا مہان درندہ کرسکتا ہے۔

اب آئیے بچوں کے تصورات پر، اب آپ چاہ کر بھی ان تصویروں کو نہیں مٹھا سکتے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور وائرل اشیاء ہمیشہ کے لیے گوگل میں نقش ہوجاتی ہے۔ ذرا دیر کو تصور کیجئے کل کو عمیر بیس سال کی ہو جاے اور کوئی دوست اس کے سامنے اس واقعے کا ذکر کریں اور یہ تصاویر ان کے سامنے رکھ دیں، سوچئے وہ لمحہ، جب اسی تصویر میں عمیر اپنے آپ کو اور اپنے معصوم بہنوں کو بے بس دیکھ کر کیا ردعمل ہوگا، اس ملک کے بارے، ان حکمرانوں کے بارے میں، ان اداروں کے بارے میں اور ان پولیس کے بارے، یہ وہی پوائنٹ ہے جہاں سے منظور پشتین پیدا ہوتے ہیں۔

اس کے ذہن میں انتقام کی جھلک ہوگی، جب وہ سوچے گا کہ میرے پاپا تو اس وطن کے ترقی کے لیے ٹیکس بھی ادا کرتے تھے، وہ تو وطن سے محبت بھی کرتے تھے، حتی کہ ان پولیس اور ان محافظوں پر ان کو غرور تھا اور انہی اداروں کا احترام کرتے تھے، مگر اپنے ہی محافظوں نے ہی میرے ماما اور بابا کو میری ہی بے بس آنکھوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی چھلنی کردیا۔ یہی یہ رویہ ہوتے ہیں جو ملک میں بغاوت پر اکساتے ہیں۔

اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے کراچی میں راؤ انور کے ہاتھوں گولیوں سے چھلنی ہونے والا جسم ہو یا پھر ماڈل ٹاون میں اپنی ہی محافظوں کے بربریت کا نشانہ بننے والے مظلوم شہری کہ جن کو کسی دوسرے ملک کے جاسوس اور شرپسند سمجھ کر مار کچل ڈالے تھے۔ قصور کی زینب ہو یا بلوچستان کے لاپتہ افراد، وزیرستان میں تقدس کے پامالی کے واقعات ہو یا کراچی کے سڑکوں سے اٹھانے والے نام نہاد غدار، یہ سارے واقعات سب کے دلوں میں نقش ہیں اور اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ردعمل مستقبل قریب میں بہت ہی خوفناک ہوگا۔ اور ان تمام سانحات کے ذمہ دار ہم خود بھی ہے کیونکہ جب تک آگ ہمارے گھر کے آنگن تک نہیں پہنچ پاتی تب تک ہم سب اچھا ہے کہ تاویلیں باندھتے ہیں۔

جس دن قصور کی زینب آپ کی سگی بیٹی، نقیب محسود آپ کا سگا بیٹا، مسخ شدہ بلوچ اور لاپتا سندھی آپ کے سگے بھائی بن گئے، یقین کر لیجیے کہ اس دیس میں کبھی ساہیوال طرز کا کوئی واقعہ نہیں ہو گا۔ ‏مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب ساہیوال سانحے والی گاڑی سے اگلی یا پچھلی گاڑی میں بیٹھے ہیں۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب پشتون اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو پنجابی اس کا مذاق اڑاتا ہے اور جب پنجاب میں ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو آج بہت پشتون بھی وہی کررہے ہیں۔ یہ صورتحال سندھ اور بلوچستان میں بھی ہے، جس دن ہم ایک دوسرے کے آواز میں آواز سچے معنوں میں ملائیں گے اور ظلم کے خلاف یکجا ہوں گے اسے دن ملک میں جرائم اور ظلم میں نہ صرف کمی آئی گی بلکہ ملک بھی سچے معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

کل اگر نقیب کے بیٹوں کو، ماڈل ٹاون کے شہدا کو، وزیرستان کے باسیوں کو بلوچستان کے لاپتہ گھرانوں کو انصاف مل جاتا تو شاید یہ واقعہ ہمیں سننے کو نہ ملتا۔ لیکن اس سانحے سے امیدیں وابستہ ہیں اگر اس سانحے کو فیصلہ کن قرار دیں اور ان کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو یقیناً ہمارا کل سنہرا ہوگا۔

اب آجاے ریاست مدینہ کی سزا اور جزا کے قانون پر، اگر ریاست مدینہ میں ایسے قتل ہوتے تو وقت کا حکمران حکم دیتا۔ چوبیس گھنٹے میں قاتلوں کو باندھ کر پیش کرو ورنہ سب خود کو معزول سمجھو ”پھر قاتل پکڑے جاتے۔ اُنہیں بیچ چوراھے میں پھانسی دی جاتی۔ لاشوں کو سات دن تک اُتارنے کی اجازت نہ ہوتی۔ اس کے بعد، اس بیان کی باری آتی کہ“ مقتولین کے بچوں کی ذمے دار آج سے ریاست کی ہے ”مگر مدینے کی ریاست ہوتی تو یہ سب ہوتا نا! لیکن نہیں یہ فی الحال اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں پہلے جے آئی ٹی بنے گی، پھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوگا، پھر تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوگی، پھر عدالت میں کیس چلے گا، ضمانت پر ضمانت ہوگی اور یوں ہی یہ سلسلہ تا عمر چلتا رہے گا۔

ایک بات ہم سب کو ذہن نشین کرنی چاہیے کہ خلیل، ذیشان، نقیب اور ماڈل ٹاون کے شہداوں، بلوچستان اور وزیرستان کے شہداوں کے بچے بڑے ہوں گے، اور یقین کیجئے اگر ہم نے ان کو انصاف نہ دیا تو ان مظلوموں کا گُرہ جنم لے گا اور اس کی تپش کو ٹھنڈا کرنا کسی کی بس کی بات نہیں ہوگی، کیونکہ جب ظلم حد سے تجاوز کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ذہنی مفلوج بنتا ہے، پھر وہ نہ مرنے کی پرواہ کرتا ہے اور نہ مارنے کی، دشمن بھی موقع غنیمت جان کر ان کو اکساتے اور ریاست میں ایک اضطراب کی کیفت پیدا کرتا ہے۔ وقت کی اہم ضرورت اب انصاف اور جلد انصاف۔ اس سے پہلے کہ وہ بچے بڑے ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).