منٹو کے افسانے صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہیں


میں نے جب اپنے شاعر اور نقاد چچا عارف عبدالمتین کو بتایا کہ پشاور کے ایڈورڈز کالج کے ادبی میگزین میں میرا ایک مضمون منٹو کی افسانہ نگاری کے بارے میں چھپا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ وہ امرتسر میں منٹو کے ہمسائے تھے کیونکہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔

بعد میں مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ عارف عبدالمتین اس رسالے کے ایڈیٹر تھے جس میں منٹو کے مبینہ فحش افسانے چھپے تھے۔ اسی لیے دونوں پر مقدمہ چلا تھا اور دونوں کو مجرم بھی ٹھہرایا گیا تھا۔

پچھلے دنوں ہندوستان میں بنی فلم ’منٹو، دیکھی تو دل میں ایک خواہش نے سرگوشی کی کہ منٹو کے بدنامِ زمانہ فحش افسانے دوبارہ پڑھوں کیونکہ فلم میں ان افسانوں سے سکرپٹ لکھنے میں استفادہ کیا گیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کینیڈا میں وہ افسانے کہاں سے حاصل کیے جائیں۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وجاہت مسعود نے سات سمندر پار ایک کامل درویش کی طرح دوسرے درویش کی دل کی مراد نہ صرف پڑھ لی بلکہ پوری بھی کر دی اور منٹو کی 18 جنوری کو برسی مناتے ہوئے وہ سب افسانے ’ہم سب، پر چھاپ دیے۔ میں نے وہ سب پرنٹ کر لیے تا کہ انہیں آرام سے پڑھ سکوں، ان افسانوں کے بارے میں غور و خوض کر سکوں اور منٹو کے فنِ افسانہ نگاری کو داد دے سکوں۔

جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ منٹو کے افسانوں پر پچھلی نصف صدی سے پاکستان اور ہندوستان میں اتنا احتجاج کیوں ہوتا رہا ہے تو میں کہتا ہوں کہ منٹو کے افسانے FOR ADULTS ONLY ہیں۔ انہیں صرف ذہنی بالغوں کو پڑھنا چاہیے۔ وہ لوگ جو منٹو کے افسانوں کو عالمی ادب اور انسانی نفسیات کی کسوٹی کی بجائے مذہب اور اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں وہ بہت مایوس ہوتے ہیں۔ وہ بالکل سمجھ نہیں پاتے کہ ایسے افسانے لکھنے کا مقصد کیا ہے۔ وہ کبھی انہیں فحش سمجھتے ہیں کبھی VULGAR اور کبھی انہیں بے مقصد اور واہیات قرار دیتے ہیں۔ وہ کبھی ان پر مقدمے چلاتے ہیں اور کبھی فتوے لگاتے ہیں۔

فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست

میں اس کالم میں ایک ادب اور نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے منٹو کے فحش افسانوں کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ عین ممکن ہے ادب کے سنجیدہ قاریوں کے لیے تفہیم کی ایک اور کھڑکی کھل سکے۔

٭٭٭  ٭٭٭

 بو

میں نے جب منٹو کا افسانہ ’بو، پڑھا تو مجھے اپنی ایک مریضہ یاد آگئی جو ماضی میں ایک مرد کے جنسی استحصال کا شکار ہوئی تھی لیکن وہ اس تکلیف دہ واقعہ کو بھول چکی تھی۔ اس کے ذہن نے اس واقعہ کی یاد کو لاشعور میں دھکیل دیا تھا اسے REPRESS کر دیا تھا۔ اس حادثے کے برسوں بعد ایک شام وہ اپنے گھر کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مگن تھی کہ اس کا شوہر دبے پائوں گھر میں داخل ہوا اور باورچی خانے میں جا کر اسے پیچھے سے گلے لگایا۔ میری مریضہ نے ایک چیخ ماری اور اسے دھکا دیتے ہوئے کہنے لگی

’مجھے مت چھوئو۔ دور ہٹ جائے،

شوہر ہڑبڑا کر پیچھے ہٹا اور شرمندگی سے پوچھنے لگا

’جانم ! کیا بات ہے؟،

میری مریضہ کو دوبارہ ہوش میں آنے میں کافی دیر لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پوچھنے لگی

’آپ نے آج کونسا پرفیوم لگایا ہے؟،

’ شوہر نے کہا ’یہ ETERNITY ہے،

’آپ نے پہلی بار لگایا ہے،

’ہاں نیا خریدا ہے،

’یہی پرفیوم اس ذلیل کتے اس حرامزادے نے لگایا ہوا تھا،

’کس نے؟، شوہر سراپا حیرت تھا

’جس نے مجھے ریپ کیا تھا،

’تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا،

،میں بھول چکی تھی،

شوہر کے اس پرفیوم کی خوشبو نے اس کے لاشعور میں ہلچل مچا دی تھی اور اس کی ماضی کی تلخ یادیں ایک فلیش بیک بن کر اس کے ذہن اور جسم پر حملہ آور ہو گئی تھیں۔

منٹو نے بھی اپنے افسانے میں اس بو کا ذکر کیا ہے جو اس افسانے کے کردار رندھیر کے لاشعور میں چھپ گئی تھی۔ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں بس گئی تھی۔ یہ ایک نفسیاتی نقطہ ہے جسے منٹو نے اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ وہ لکھتا ہے ’ وہ حنا کی خوشبو میں اس بو کو تلاش کر رہا تھا جو انہی دنوں میں جب کہ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے بارش میں نہا رہے تھے اس گھاٹن لڑکی کے میلے بدن سے آئی تھی،۔ اس افسانے میں وہ بو اس کے ماضی کی ایک خوشگوار یاد ہے جو اسے بہت عزیز ہے اور وہ نئی محبت میں پرانے تعلق کو تلاشتا ہے۔ یہی نفسیاتی سچ اس افسانے کا سچ ہے اور منٹو کی افسانہ نگارے کے فن کا کمال۔

ہم سب اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ بہت سے انسان اپنے حواسِ خمسہ میں سے

آنکھوں سے دیکھنے

کانون سے سننے

ہاتھوں سے چھونے

اور زبان سے چکھنے کو روزمرہ زندگی میں زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن ناک سے سونگھنے کو کم۔ یہ علیحدہ بات کہ خوشبو اور بدبو کا ہمارے شعور اور اجتماعی لاشعور سے گہرا تعلق ہے خاص طور پر ماضی کی یادوں کے حوالے سے۔

منٹو کا افسانہ ’بو، نفسیاتی طور پر تہہ دار ہے اور ادبی طور پر گھمبیر۔ لیکن مذہب اور اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کو اس میں فحاشی اور عریانی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ میں ایسے قارئین سے کہتا ہوں وہ منٹو کے افسانے پڑھنے کی بجائے ’حور، اور ’زیب النسا، کے افسانے پڑھا کریں کیونکہ ان کے لیے ادب رات کو سونے سے پہلے تضیعِ اوقات اور انٹرٹینمنٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ تفریحی ادب پسند کرتے ہیں جبکہ منٹو جیسے افسانہ نگار ادبِ عالیہ لکھتے ہیں، سنجیدہ ادب تخلیق کرتے ہیں جو ادب اور زندگی کے پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ سنجیدہ ادب کے بارے میں WITOLD GOMBROWIITZ فرماتے ہیں

SERIOUS LITERATURE DOES NOT EXIST TO MAKE LIFE EASY BUT TO COMPLICATE IT

(سنجیدہ ادب زندگی کو آسان کرنے کے لئے تخلیق نہیں کیا جاتا۔ اس کا منصب تو زندگی کو مزید پیچیدہ کرنا ہے)

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail