معلومستان کے نامعلوم قاتل


14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشہ پر ایک معلوم ریاست نمودار ہوئی ایک سال تک اس کی معلوم سرحد پر معلوم نہتے دس لاکھ کسانوں، مزدورں، بے گھروں کو نامعلوم قاتل کاٹتے رہے۔ ہم پھر بھی خاموش رہے کہ اتنی قربانی تو بنتی ہے ایک ریاست بنانے کے لئے۔ چلیں یہ بھی تسلیم کر لیا اس عرصہ میں انسان نہیں مذہب کی گردن پر چھری چلائی گئی لہذا یہ ایک پاکیزہ عمل ٹھہرا۔ مگر یہ کیا اکتوبر 1951 کمپنی باغ راولپنڈی میں اس سیاسی تحریک کے محرک کردار جس نے اس ریاست کی تشکیل میں کوشش کی اسے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر نامعلوم قاتل نے سرعام قتل کر دیا۔ اپنی جاں دے کر بے نام کمپنی باغ کو اپنا نام دیا۔ آج اس باغ کو لیاقت باغ لکھا اور پکارا جاتا ہے، مگر قاتل آج تک نامعلوم ہی ہیں۔

موجودہ بنگلادیش جو 1970 تک معلوم ریاست کا ایک بازو تھا، نامعلوم مگر جاں لیوا بیماری کے نام پر کاٹ دیا گیا۔ نیا آئین نئی تاریخ رقم ہوئی معلومستان کا ہر فرد آزاد قرار پایا، جو لکھ، پڑھ سکے جو زندہ رہ سکے اپنی آواز احتجاج میں بدل سکے مگر اس آئین کے موجد ذوالفقار بھٹو کو نامعلوم سازش کے تحت تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ایک اور معلوم آواز خاموش کر دی گئی۔ کہتے ہیں دنیا مکافاتِ عمل ہے اس سازش کا پروردہ کردار خود دورانِ پرواز آم چوسنے کے جرم میں نامعلوم قاتلوں کی طرف سے پل بھر میں سالم چرغا بنا دیا گیا۔ آج تک اس قصہ کے راوی بھی نامعلوم ہی ہیں۔

جوڑ توڑ کے بعد ایک بار پھر معلومستان آزاد ہوا۔

ابھی دس سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ’کارگل‘ فلم ریلیز ہو گئی عوام میں بہت پذیرائی ملی ڈائریکٹر کے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ اس شاندار کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے نامعلوم کرداروں کی کاسٹ کے ساتھ ایک شارٹ سٹوری قسم کی ’ڈاکو مینٹری‘ فلم ’1999 طیارہ ہائی جیکنگ‘ ریلیز ہوئی اور اسی دن ایک اور آئینی وزیراعظم کو نامزد قرار دیتے ہوئے اندر کر دیا۔ اس سابقہ وزیراعظم کو علم تھا۔ نامعلوم وجوہات میں گرفتار کیے جانے کے بعد معلوم ملزم کے لئے نامساعد حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تختہ دار پر چڑھائے جانے کی پختہ روایت موجود ہے، لہذا جان بچا کے ہجرت کر جانا ہی بہتر ہے۔

کمانڈو مکا لہراتے تخت نشین ہوا ابھی معلومستان کے عوام کی طرف مکے لہرائے ہی جا رہے تھے کہ مقدس سرزمین عرب سے کچھ نامعلوم مجاہدوں نے 9 / 11 کر دیا اور ہمارا ہر دل عزیز کمانڈو ڈائریکٹر ایک نامعلوم کال پر اس تمام کارروائی کی ذمے داری معلومستان پر ڈال دیتا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک سکول بچوں سمیت 70 ہزار معلوم عوام نامعلوم دہشت گردوں کی نذر ہو چکا ہے۔

اسی دوران جلاوطن سابقہ وزراء اعظم واپس آتے ہیں بھٹو کی بیٹی تو جیسے آئی ہی قتل ہونے تھی اس کی کراچی آمد پر 150 سے اوپر معلوموں کو نامعلوم دہشت گردوں نے مار دیا۔ وہ پھر بھی نہیں رکی واپسی کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اسے مرنا ہی تھا تو کسی اور بے نامی کمپنی باغ میں چلی جاتیں مگر وہ بھی معلوم لیاقت باغ ہی آگئیں، وہی ہوا جس کا ڈر تھا ایک بار پھر نامعلوم قاتل معلوم بیٹی کو قتل کر گئے۔

وہ نامعلوم عربی بعد میں مجاہدستان اور معلومستان سے برآمد ہوتے رہے اور ہم سانحہ APS تک اچھے اور برے دہشت گردوں کو چھانٹی کرنے میں مصروف رہے۔ اسی دوران نامعلوم قاتلوں نے کافی حد تک بلوچستان، وزیرستان کراچی سے معلوم دہشت گردوں کا صفایا کر دیا۔ البتہ کبھی کبھی اپنی تکنیکی صلاحیت کا درست استعمال نہ کرنے کی وجہ سے نقیب اللہ معسود جیسے قتل منظر پر آ جاتے ہیں اور راؤ انوار جیسے مہرے بھی ہیرو سے زیرو بن جاتے ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں۔

سانحہ ساہیوال تو ان تمام سانحات سے انوکھا اور انفرادی ہے۔ ایک معلوم خاندان کو ان کے کم سن بچوں کے سامنے نہ صرف قتل کر دیا گیا بلکہ بچوں کو بھی ان کے والدین سے واگزار کروا لیا گیا۔ اعلٰی حکام سے داد و تحسین کا یہ انداز بھی نامکمل معلوم ہوا تو اگلے ہی لمحے مقتولین کو ایک بین الاقوامی تنظیم داعش کا کمانڈر بھی بنا دیا۔ جس کی معلومستان میں غیر موجودگی کا راگ ہر روز الاپا جاتا ہے۔ ایک وزیر با تدبیر نے تو ہماری جہالت کو یہ کہہ کر جھنجوڑا کہ، کیا دہشتگردوں کے بچے نہیں ہوتے؟

جو کہانی بنائی گئی وہ قابلِ یقین بھی تھی داد طلب بھی اور اب تک نامعلوم شیر جوانوں کو سٹار بھی مل چکے ہوتے۔ مگر وہ معصوم بچے باہمت نکلے اور بول اٹھے ایسی ہمت کوئی طاقتور ہی کر سکتا تھا۔ گوادر سے خیبر تک ہر روز نامعلوم قاتل قتل کرتے ہیں لیکن ان نامعلوم قاتلوں کے چہرے پہ پڑھا نقاب کوئی اتارنے کی ہمت نہیں کرتا، ان بچوں نے اسے اتار پھینکا ہے۔ قریبِ مرگ معلومستان میں ان معصوموں کی آواز کو اب ہم یا تو طاقت بنا لیں یا پھر خاموش رہ کر ہمیشہ کے لیے قتل ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).