عدالتی اور پولیس نظام کی اصلاح ضروری ہے


2019 امن و امان کے لحاظ سے پاکستان کے لیے کیسا ثابت ہوگا۔ پوچھنے میں یہ سوال جتنا سیدھا اور آسان ہے اس کی گتھی سلجھانا اتنا ہی پیچیدہ اور مشکل۔ اس پر بحث جاری تھی درمیان میں سانحہ ساہیوال ہو گیا تمام لوگ، دانشور، کالم نویس اور دفاعی تجزیہ کار سب کچھ چھوڑ چھاڑ مقتول ذیشان کا شجرہ کھنگالنے اور سی ٹی ڈی کی بربریت اور پولیس نا اہلی کی طرف توجہ مرکوز کر بیٹھے۔ کوئی شبہ نہیں یہ سانحہ بدترین سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا۔

ماضی میں انگنت ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ دو ہزار گیارہ میں رینجرز کے اہلکاروں نے کراچی کے ایک پارک میں سرفراز نامی نوجوان کو باوجود منت سماجت گولیوں سے بھون رکھ دیا۔ شور شرابہ ہوا، دفع وقتی کی خاطر کیس چلا، سزا بھی ہوئی لیکن اب سنا ہے کہ خاموشی سے مذکورہ اہلکار آزاد ہو چکے۔ کئی سالوں تک چوہدری اسلم عفریت بنا بیٹھا رہا، بالآخر ایک خودکش حملے میں مارا گیا۔ اس کے بعد اس کی گدی راؤ انوار نے سنبھال لی، تین سال تک چار سو زائد افراد مبینہ طور پر اس کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

ہر جگہ ٹانگ اڑانے والی عدالتی زبان کو، یا بال کی کھال اتارنے کے دعویدار میڈیا کو تحقیق کی جستجو نہ ہوئی کہ آخر ملیر، سہراب گوٹھ، الآصف اور گڈاپ میں ہی القاعدہ، ٹی ٹی پی اور داعش کے خطرناک دہشت گرد کیوں ملتے ہیں۔ اور صرف اور صرف راؤ انوار اور اس کی پارٹی کے ہاتھوں ہی کیوں مارے جاتے ہیں۔ میڈیا پر قومی سلامتی کے خلاف لکھی تحریر یا ادا ہوئے الفاظ پر سیکنڈز میں کھلنے والی آنکھوں اور کھڑے ہونے والے کانوں نے بھی نوٹس نہ لیا کہ اس کا ردعمل بدرجہاں بدتر ہو سکتا ہے۔

نقیب اللہ نامی نوجوان سوشل میڈیا پر مشہور تھا، اسی لیے اس کی باری ہنگامہ برپا ہوا ورنہ وہ بھی تاریک راہوں میں گم ہو چکا ہوتا۔ اس قتل پر کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے شروع ہوگئے۔ بعض سیاسی قوتوں نے بھی اپنے مقاصد کی خاطر اس کیس کو اچھالا۔ اس کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی حوصلہ محسوس ہوا۔ سوموٹو نوٹسز کے ذریعے خبروں میں رہنے والے ہمارے چیف صاحب نے اس پر نوٹس لے لیا، جب تک مگر راؤ انوار مفرور ہوگیا۔

اسے بلانے کے لیے عدلیہ کی طرف سے منت ترلے ہوئے، بھاگ دوڑ ہوئی مفرور پولیس افسر کے اپنے ہی افسران بالا سے مذاکرات ہوئے۔ ہم جیسوں کو کبھی خبر نہ ہو گی کون سی ضمانت دی گئی، کیا شرائط طے ہوئی یا اس کی سرپرستی کس قوت کے پاس تھی کہ اچانک ایک دن فلمی انداز میں اس کی انٹری ہوئی۔ تھوڑی بڑھکیں لگی، انصاف فراہم کرنے کے وعدے ہوئے مگر اچھل کود کے بعد آج تقریبا اسے با عزت بری سمجھیں۔

کسی سے اگر سوال کریں، راؤ انوار کا کچھ بگڑا کیوں نہیں؟ جواب یہی ملتا ہے طاقتور ہاتھ اس کی پشت پر تھے جن کے لیے وہ برسوں کام کرتا رہا لہذا اپنے پول کھلنے کے ڈر سے اسے بچانا لازم تھا۔ حالیہ واقعے کے بعد پنجاب حکومت کے بدلتے بیانات، پھر جے آئی ٹی رپورٹ اور رپورٹ کے بعد بھی صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی بدن بولی یہ بتانے کو کافی نہیں کہ یہ قربانی کا بکرا بنے سی ٹی ڈی اہلکاروں کی اوقات کا کام نہیں۔ لکھ رکھیں تاکہ سند رہے کچھ عرصہ دھول چھٹنے کے بعد یہ بھی آزاد ہوں گے۔

راؤ انوار والے واقعے کے بعد ایک سیکیورٹی ادارے کے دوست افسر سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا، آئندہ کوئی پولیس افسر یا اہلکار اس طرح کا کام کرتے ہوئے سو بار سوچے گا اور راؤ انوار تو گیا کام سے۔ میری سادگی پر دوست نے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا! ”تم کیا سمجھتے ہو پولیس کی اتنی اوقات ہے اپنے تئیں اتنا کھڑاک مول لے؟ تم دیکھنا راؤ انوار کو آنچ تک نہیں آئے گی اور اس طرح کے واقعات بھی مزید سامنے آتے رہیں گے“۔

اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ نوے کی دہائی کے کراچی آپریشنز میں حصہ لینے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ جس لسانی جماعت کے خلاف آپریشن ہوا اس کے کسی دہشتگرد کے خلاف مقدمہ چلا بھی تو گواہ دستیاب نہیں ہوتے تھے۔ کوئی سر پھرا گواہی دینے پر راضی ہوا تو اگلے روز اس کی بوری بند لاش ملتی۔ جج ایسے بنچوں کا حصہ بننے سے انکاری ہو جاتے۔ بعدازاں یہ بھی دیکھا گیا جن حکمرانوں کے حکم پر سرکاری ملازمین نے جانیں ہتھیلی پر رکھیں وہ خود اپنی سیاسی ضرورتوں کی خاطر دست بستہ نائن زیرو پر کھڑے ہو گئے۔

اس کے بعد یہ ہوا کہ ریاستی اداروں نے بھی اپنی پالیسی بدل لی۔ جس شخص کے متعلق پکا یقین ہو جاتا یہ تخریب کار یا ملک دشمن کام میں ملوث ہے، وہ ٹھکانے لگ جاتا، جہاں سے کچھ مزید معلومات ملنے کی توقع ہوتی اسے مسنگ پرسنز میں شامل کر دیتے۔ (اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تمام ماورائے عدالت قتل جائز ہیں، بہت سے پولیس افسران نے اس کی آڑ میں ذاتی دشمنی بھی نکالی اور بعض جگہوں پر الزام لگا کہ پولیس نے لوگوں کو کرائے کے عوض بھی قتل کیا۔

اسی طرح تمام مسنگ پرسنز بھی اداروں کے کھاتے ڈالنا زیادتی ہے۔ شواہد دستیاب ہیں، بیشتر لوگ بلوچ علیحدگی پسندوں سے مل کر غائب ہوئے یا ٹی ٹی پی میں شامل ہوکر افغانستان سدھار گئے ) ۔ ماورائے عدالت قتل کا عمل خود پالیسی سازوں کی نظر میں کراہت آمیز ہے۔ ہمارے کمزور انوسٹیگیشن اور پراسیکیوشن سسٹم میں مگر اس کے سوا فی الحال چارہ بھی نہیں۔ راجہ بشارت کے بیان کو دیکھ لیں۔ ایک طرف وہ سی ٹی ڈی کو قصوروار قرار دے رہے ہیں دوسری جانب آپریشن کو بھی درست کہہ رہے ہیں۔ اب اس کے دو مطلب ہیں اول تو بیان کردہ کہانی کے مطابق مقتول ذیشان واقعی دہشتگرد تھا لیکن ساتھ مرنے والے بیگناہ کولیٹرل ڈیمج کی زد میں آئے۔ دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جس ادارے نے انفارمیشن فراہم کی وہ غلطی کا مرتکب ہوا۔

کسی خرابی میں تعمیر کی صورت بھی ہوتی ہے۔ پہلی بار دیکھا گیا عوام خود رضاکارانہ بیان ریکارڈ کرانے پر تیار ہیں۔ ماضی کی طرح تمام سیاسی جماعتیں سانحہ ساہیوال پر سیاست چمکانے کے بجائے منطقی انجام تک پہنچانے کی دعویدار ہیں۔ 2002 ءمیں سابق وزیرداخلہ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے دور میں پولیس نظام میں تبدیلی کے لیے ایک آرڈیننس منظور کیا گیا اور اس کے تحت امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید پولیس کے ڈھانچے میں تبدیلی آ جائے۔

کیونکہ اس میں وکلا اور سول سوسائٹی کا کردار بھی تجویز ہوا تھا لیکن یہ آرڈیننس اپنی اصل روح کے مطابق نافذ ہی نہیں ہوا اور محظ پولیس افسران کے عہدوں کے نام تبدیل کرنے تک محدود رہا۔ وجہ یہ بنی کہ اس وقت کے وزیراعلی پنجاب نے مشرف کو باور کرایا کہ اگر یہ کام شروع ہوا تو الیکشن میں من پسند نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس واقعے کے بعد اگر عوام میں بیداری پیدا ہوئی ہے تو دو چار دن واویلے کے بعد بے حسی کی چادر تان کر سونے کے بجائے حکومت کو پولیس میں اصلاحات پر مجبور کرنا چاہیے۔ عدالتی نظام میں بہتری، ججز، وکلا اور گواہان کا تحفظ یقینی بنانا پڑے گا۔ کچھ وقفے کے بعد ورنہ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور عوام پھر رو پیٹ کر چپکے ہو جایا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).