ذیشان کا معاملہ مشکوک کیوں؟


سانحہ ساہیوال میں مارے جانے والے ذیشان کے بارے میں جے آئی ٹی نے شکوک کا اظہار کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ ذیشان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ نے ذیشان کو بے گناہ ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہ اس طرح کہ جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی کی طرف سے آپریشن ٹھوس انفارمیشن پر نہیں کیا گیا اس بات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سی ٹی ڈی نے ایک ایسی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے متعلق ان کے پاس مکمل انفارمیشن نہیں تھی، جب ٹارگٹ ہی درست نہ تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی گاڑی کے تین سوار تو بے گناہ ہوں اور ایک سوار گناہ گار ہو۔

سی ٹی ڈی نے سانحہ ساہیوال کے بعد موقف اختیار کیا تھا کہ ذیشان خلیل کی فیملی کی آڑ میں ملتان بارودی مواد سپلائی کرناچاہتا تھا جبکہ جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ گاڑی سے کوئی بارودی مواد نہیں مل سکاہے، اسی طرح سی ٹی ڈی نے کہا کہ گاڑی سے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی تھی لیکن جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق گاڑی سے فائرنگ کے شواہد نہیں مل سکے۔

میرا وجدان کہتا ہے کہ جس طرح واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ساہیوال واقعے کو چھپانے کی پوری کوشش کی تھی اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولے تھے اسی طرح ان کی آخری کوشش ہے کہ کسی طرح سے ذیشان کا تعلق دہشتگردی سے جوڑدیا جائے تاکہ وہ سو فیصد نہ سہی تیس فیصد ہی عوام کے سامنے سرخرو ہو سکیں کہ سی ٹی ڈی کی کارروائی درست تھی اور سی ٹی ڈی کا ٹارگٹ بھی دہشتگرد ہی تھے لیکن گناہ گار کے ساتھ بے گناہ مارے گئے ہیں۔

اب چونکہ پوری قوم سانحہ ساہیوال کا حساب مانگ رہی ہے اور بات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہی ہے تو شواہد تلاش کیے جا رہے ہیں اور بہت دور کی کڑی کی ملائی گئی ہے کہ ذیشان کے فون سے چند روز قبل فیصل آباد میں مارے جانے والے عدیل نامی ایک شخص کے ساتھ بات ہوئی تھی۔ کیا کسی کو دہشتگرد ثابت کرنے کے لئے یہ ثبوت کافی ہے، کیا کسی شہری کو محض اس ثبوت کی بنا پر موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے کہ اس نے دہشتگرد سے بات کی تھی؟ سانحہ ساہیوال پر قائم کی گئی جے آئی ٹی یقیناً اس پہلو پر بھی تحقیقات کررہی ہوگی کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے دہشتگردوں کی گاڑی کی بجائے کسی دوسری گاڑی کو ٹارگٹ کیا ہو، میرا ذاتی خیال ہے کہ جب جے آئی ٹی اس پہلو پر فوکس کرے گی تو حقیقت سامنے آجائے گی۔

ماضی کے ایک تلخ باب کی روشنی میں اس پورے معاملے کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ چند سال قبل جب افغان جہاد عروج پر تھا، پاکستان اس جہاد میں ہر اعتبار سے شرکت کر رہا تھا، پاکستان سے بڑی تعداد میں مجاہدین افغانستان جاتے، روس کے خلاف جہاد کرتے، مر جانے والوں کو شہید کہا جاتا اور زندہ بچ جانے والے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، خلاصہ یہ کہ ایک وقت تھا کہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین تھے نہ کہ دہشتگرد۔

اس وقت کے مجاہدین میں سے متعدد آج بھی حیات ہیں، وہ لوگ افغان جہاد کے بعد پاکستان میں معمول کی زندگی گزار رہے ہیں، کسی نے کریانے کی دکان بنا رکھی ہے، کوئی مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے اور کوئی دوسرے کسی کام میں مصروف عمل ہے لیکن آج انہیں کوئی مجاہد نہیں کہتا بلکہ آج وہ مجاہدین نئی امریکی پالیسی کے مطابق دہشتگرد بن چکے ہیں اگر کوئی ایسے لوگوں سے مل بھی لے تو اسے بھی اس کا ساتھی شمار کیا جاتا ہے، کیا معلوم کل کو میرے اورآپ کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ آپ نے ایک دہشتگرد سے مزدوری کروائی تھی اس لئے آپ بھی دہشتگرد ہیں۔

ساہیوال سانحے کے ٹھوس شواہد سامنے آنے کے بعد بہت کچھ واضح ہے اس کے باوجود اگر حکام چشم پوشی سے کام لیں تومیر تقی میر کے بقول
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

اگر تمام تر حقائق کے سامنے آجانے کے باوجود حکام نے اپنی انا اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو بچانے کے لئے ذیشان کو دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کی تو حکام کا یہ عمل سانحہ ساہیوال سے بھی بڑا جرم ہوگا کیونکہ سانحہ ساہیوال میں تو سی ٹی ڈی کے چند اہلکارملوث تھے اورانہوں نے عجلت میں کارروائی کی لیکن ذیشان کو بے گناہ سے گناہ گارثابت کرنے کے لئے حکام کے پاس نہ وقت کی کمی ہے اور نہ ہی وسائل کی کمی۔ اس کے باوجود اگر کوئی فیصلہ انصاف کے خلاف کیا گیا تو یہ ریاستی سرپرستی میں کیا جانے والا بدترین ظلم ہوگا اور جب کوئی طاقت کے زعم میں کسی بے گناہ پر ظلم کرتا ہے تو قدرت اس مظلوم کی خود ترجمان بن جاتی ہے، ذیشان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر دہشتگرد ثابت کرنے پر کہیں ایسا نہ ہو کہ قدرت کی آواز لاٹھی حرکت میں آئے اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بچانے والے خود بھی نہ بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).