چوڑے کون ہیں؟ ایک مختصر تعارف


لفظ ”چوڑا“ کے بارے میں ایک مغالطہ عام ہے کہ یہ لفظ صرف عیسائیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اور نا ہی یہ لفظ کسی بھی مذہب کے بارے میں نفرت انگیز ہے۔ جیسا کہ ہم اپنے معاشرے میں لفظ چوڑے کو حقیر اور نیچ سمجھتے ہیں جو کہ کسی طور مناسب نہیں ہے۔

اس لفظ کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ شمالی ہند میں صفائی کرنے والے لوگوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا، جن میں چوڑا بھی شامل تھا یہ مختلف نام مندرجہ ذیل ہیں،
1 مہتر
2 چوڑا
3 لال بیگ
4 حلال خور
5 خاکروب

یہ پانچوں القابات تھے جو امرا کی بستیوں کو صاف کرنے والے لوگوں (جنہیں بھنگی بھی کہا جاتا تھا) کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اور ان سب کا تعلق ہندو دھرم کے سب سے نچلے طبقے شودر سے تھا۔ آنے والے وقتوں میں مندرجہ بالا القابات میں سے ”چوڑا“ کہلانے یا یوں کہہ لیجیے کہے جانے والے کثیر تعداد میں ہوتے گئے اور بعد میں یہ چوڑے لوگ باقاعدہ ایک ذات بن گئے۔ چونکہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ یہ ہندو مذہب کا شودر طبقہ تھا جو انتہائی پستی کی حالت میں پسے ہوئے لوگ تھے۔

اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ دوسرے مختلف مذاہب اختیار کرتے گئے۔ شروع میں چوڑا ذات کی اکثریت نے گورونانک صاحب کا سکھ مذہب اختیار کرلیا، اسی وجہ سے برصغیر میں سب سے زیادہ چوڑے بھارتی پنجاب کے دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔ اور ان کی تھوڑی تعداد اپنے پرانے مذہب ہندومت پہ قائم رہی جسے ”والمیکس ازم“ بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ مغربی ہند کے پسے ہوئے اس ہندو چوڑے طبقے نے عیسائیت قبول کر لی جو اب موجودہ پاکستان میں آباد ہیں۔

حیرانی کی بات شاید یہ بھی ہو آپ کے لئے کہ بہت تھوڑی تعداد میں چوڑے مسلمان بھی ہیں یہ وہ شودر ہندو چوڑے تھے جو جامع مسجد دہلی کے آس پاس آباد تھے اور جو ہندو شودروں سے مسلمان ہوئے تھے۔ لیکن آٹھارہ سو بیس تیس سے لے کر آنے والے سو سال میں عیسائیت مذہب بہت تیزی سے برصغیر میں پھیلا اور یہ لوگ بھی تیزی سے عیسائی ہونا شروع ہوگئے۔ بہرحال برصغیر میں ابھی بھی مسلم چوڑوں کی ایک قلیل تعداد آباد ہے۔ جو مصلی (مسلم چوڑے ) کہلاتے ہیں۔

چوڑوں کی معاشرتی زندگی کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ یہ محنتی، ایماندار اور زور بازو سخت محنت کر کے روٹی روزی کمانے والا طبقہ ہے۔ جس کی مثال آج بھی بھارتی پنجاب کے چوڑے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے یہ چوڑے زیادہ تر پنجابی کسانوں کے ساتھ موالیوں کا کام کرتے ہیں جن کے ذمے جانوروں کی دیکھ بھال اور کھیتوں میں کام کاج ہے۔ سکھ چوڑے اپنے آپ کو مزاہبی بھی کہلاتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی ان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ لوگ محنتی اور جفاکش ہیں۔ صفائی ستھرائی سے لے کر کے کھیت کھلیان میں کسانوں کی مدد تک ہر طرح کا کام محنت سے کرتے ہیں۔

پنجابی زبان کے نامور شاعر میاں محمد بخش صاحب نے بھی اپنے ایک شعر میں لفظ ”چوڑے“ کا استعمال کیا ہے۔ میاں صاحب فرماتے ہیں

بے حیائی دے حلوے نالوں ساگ سرسوں دا چنگا
بے غیرت دی یاری نالوں سنگ چوڑے دا چنگا

میاں محمد بخش صاحب نے اپنے اس شعر میں اس طبقے کی اسی عظمت کو ایک عظیم استعارے کے طور استعمال کیا ہے کہ اگر ایک شخص بے غیرت (شعر کے سیاق و سباق اور مرکزی خیال کو دیکھا جائے تو یہاں لفظ بے غیرت کا مطلب حرام کھانے والا یا محنت کر کے نا کھانے والا لیا گیا ہے ) ہے تو اس کی دوستی کی نسبت یہ چوڑا طبقہ بہتر ہے جو معاشرتی لحاظ سے پست ترین ہے لیکن حق حلال کی روٹی روزی کما کر کھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).