پنجاب پولیس عوام کی قاتل بن چکی


جس طرح فوج ملک کی حفاظت کرتی ہے اور سرحدوں کی محافظ ہے اسی طرح پولیس بھی عوام کی حفاظت کے لئے بنائی گئی تھی کہ وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرے لیکن پاکستانی پولیس تو عوام کی قاتل بن گئی ہے- آخر اس میں قصور کس کا ہے۔ ان سب حکومتوں کا جو پولیس کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ مرتضی بھٹو سے لے کر نقیب اللہ محسود اور ماڈل ٹاؤن جیسے چند واقعات تو ہائی لائیٹ ہوئے ہیں باقی کروڑوں کی تعداد میں عوام دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں کئی لوگ پولیس کے جیلی مقابلوں میں مار دے جاتے ہیں ان کی تو کوئی پکار بھی نہیں سنتا کیونکہ وہ غریب لوگ ہوتے ہیں اور الیکشن میں ووٹ نہ دینے کی ان کو سزا دی جاتی ہے۔

پولیس والے پیسا دے کر یا سیاسیوں کے کتے پال کر بھرتی ہوتے ہیں جو دیکھ کر آتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ ایک تھانے میں جائیں تو سپاہی سے لے کر ایس پی تک سب کو خوش کرنا پڑتا ہے جس رشوت کا نام پولیس والوں نے چائے پانی رکھا ہوا ہے اس کو دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سپاہی کو تو سب کے سامنے بند مٹھی میں دیا جاتا ہے۔ تھانیدار کو مٹھائی کے ڈبے میں دی جاتی ہے اور ایس پی کو ٹیبل کے نیچے سے ہاتھ کر کے دی جاتی ہے اور دینے کے بعد بھی ڈر ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے ہمارا مخالف زیادہ پیسے والا ہو اور اس کی آفر زیادہ ہو گئی تو ہماری جمع پونجی ضائع ہو جائے گی۔

کافی عرصے سے میں یورپ میں مقیم ہوں ان کی پولیس ان کے قانون دیکھ کر اپنے ملک کی پولیس قصائی لگتی ہے اور افسوس ہوتا ہے ان کے بچوں پہ جو اس کمائی پہ پل رہے ہیں۔ ہمارے علاقے کے لوگ جتنے مرضی غریب ہوں پولیس اور پیروں کو رشتہ نہیں دیتے تھے یہ کہ کر کہ یار کیا بچی ساری زندگی دوسروں کا حق اور حرام کھاتی رہے گی مگر ان سب کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں اگر پولیس کو غیر سیاسی کرتے اور میرٹ پہ بھرتی کرتے تو ہماری پولیس بھی سکارٹ لینڈ یارڈ پولیس بن سکتی ہے۔

پولیس کے لئے کوئی بجٹ نہیں ہوتا وہ رکشے پہ ملزموں کو پیشی پہ لاتے ہیں۔ تھانوں میں ابھی تک دو پروں والے پنکھے چل رہے ہوتے ہیں تھانیدار گرمی کی وجہ سے شرٹ اتار کر ٹیبل پہ پاؤں رکھ کر جب سپاہی سے ہاتھ والا پنکھا جھلوا رہا ہوتا ہے تو وہ پولیس کم اور پرانی فلموں کا غنڈا لگ رہا ہوتا ہے۔ جس طرح ہم سیاست دانوں کو عزت دیتے ہیں کہ اسمبلی میں آتے ہی ان کی حالت بدل جاتی ہے ایسی سہولیات ہم پولیس کو کیوں نہیں دیتے کیا یہ حق صرف سیاست دانوں کا ہے۔

ہمارا حق ہے کہ ہم پولیس جو جدید سہولیات سے آراستا کریں ان کو ہر سہولت مہیا کریں تب ہی پولیس سے اچھائی کی امید کی جا سکتی ہے یہ کالم لکھتے ہوئے بچہ تنگ کر رہا تھا تو میں نے دیسی مولوی کی طرح تھپڑ جڑ دیا وہ روتے ہوئے کہنے لگا اگر ماں باپ بننے کی سکِل (skill) نہیں یے تو بچے پیدا کیوں کرتے ہو۔ میں نے کہا، بچو! ہم پاکستانی ہیں پہلے گاڑی روڈ پہ چلاتے ہیں دو چار بندے مار کر لاسنس لیتے ہیں اور پہلے پولیس میں پیسے دے کر بھرتی ہوتے ہیں بعد میں پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں۔ انگریزوں کی تربیت ہے

بچہ روتے ہوئے کہنے لگا وہ تو آپ کو دیکھ کر اور پاکستان کی ترقی دیکھ کر ہی نظر آتا ہے خیر اگر میں نے اسے روڈ پہ مارا ہوتا تو اب تک جیل میں ہوتی لیکن ہم بھی اپنی پولیس کی طرح سیانے ہیں گھر کے اندر ہی جرم کرتے ہیں۔ اس بار حکومت کے پاس اچھا موقع ہے وہ سانحہ ساہیوال کی شفاف تحقیقات کرا کے ماڈل ٹاؤن اور راؤ انوار کو بھی شکنجے میں لا سکتی ہے اور پولیس کو بھی ٹھیک کرنے کا سنہری موقع ہے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو یہی پرانا نظام چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).