سندھ کا ڈھکن وزیراعلیٰ ۔۔ اور ایک ادھورا کلپ


\"q1\"ابھی امجد صابری کے انتقال پر جب ان کی رہائش گاہ مختلف لوگوں کی آمد ہوئی تو اسی سلسلے میں ایک شخص تعزیت کے لیے آیا تو غم زدہ چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔

یہ کوئی مسخرا نہیں تھا بلکہ سندھ کا وزیراعلیٰ تھا، قائم علی شاہ گاڑی سے اترے تو لوگوں نے پھبتیاں کسنا شروع کر دیں، وہ خاموش رہے اور بغیر کوئی جواب دیئے چلے گئے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ابھی ہیٹ اسٹروک کے موقع پر پورے کراچی میں کیمپ لگے، قائم علی شاہ نے ان کیمپوں کا دورہ کیا، لوگ جمع ہوگئے، قائم علی شاہ نے سوال کیا کہ آپ کو کوئی شکایت ہے تو مختلف جواب آئے۔

ایک صاحب نے فرمایا کہ سائیں ، پانی گیلا ہےاور اس کے بعد قہقہوں کا ایک شورتھا، قائم علی شاہ خاموش کھڑے رہے اور بغیر کوئی جواب دیئے چلے گئے۔

اگر آپ سوشل میڈیا دیکھیں تو فرعون اور قائم علی شاہ کے موازنے سے لے کر ملک الموت سے قائم علی شاہ کےمکالمے تک بے شمار \"q3\"لطائف اور تصاویر ملیں گی۔

اگر آپ الیکٹرانک میڈیا دیکھیں تو سائیں سرکارکی پھبتیوں سے لے کر سندھ کی خراٹے لیتی سرکار تک کی تضحیک بھری تعبیرات ملیں گی۔

قائم علی شاہ کے خلاف کرپشن ، اقربا پروری اور عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا ایک الزام بھی نہیں ہے مگرشاید اس ناکامی کی جھنجلاہٹ میں ان کو بھنگ والی سرکاربھی کہا جاتا ہے۔

اس کے بالمقابل اگر ہم خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو دیکھیں تو موصوف چین اسموکر ہیں، ان پر کرپشن کے سنگین الزمات خود ان کے پارٹی ممبران کی جانب سے عائد ہیں، ان کی جانب سے قائم کردہ احتساب بیوروکا سربراہ پرویزخٹک کو کرپٹ کہتا ہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ کا بھی یہی حال ہے، میٹروسے لے کرمعمولی ڈی سی کی تعیناتی تک اصول ضابطوں کی خلاف ورزی کے قصے زبان زدعام ہیں، بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثنااللہ زہری کی تو شہرت کیا کہنے۔۔ بس اتنا کافی ہے کہ ان پر الزام ہے کہ وہ انتہاپسندوں کے کیمپ چلاتے ہیں۔

مگر قائم علی شاہ پر ایسا کوئی الزام تک نہیں۔۔ ان کی شہرت بالکل بے داغ ہےمگر اس کے باوجود 88 بر س کا یہ بزرگ وزیراعلیٰ انتہائی\"q3\" سطحی قسم کی تضحیک اور تحقیر کا شکار ہےاور کوئی جواب تک نہیں دیتا، ایسے میں زمانہ کچھ بھی کہے، ہوا کا رخ جو بھی ہو، میں تواس کےحق میں لکھوں گا۔

قائم علی شاہ پاکستان کے پہلے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے،1970میں الیکشن جیتنے کے بعد قائم علی شاہ کو صنعتوں اور امورکشمیر کا وفاقی وزیربنایا گیا، اس وقت ان کی عمر  42 برس تھی۔

کسی بھی ریاست کی زندگی میں سب سے اہم واقعہ دستور کی تشکیل ہوتا ہے، قائم علی شاہ دستور بنانے والی 11 رکنی کمیٹی کے ممبر تھے، اس وقت اس دستوری کمیٹی کا کوئی رکن حیات نہیں ہے، یہ وہ واحد حیات قانون دان اور قانون ساز ہیں، جو پاکستان کے دستور کے خالق ہیں اور دستوری معاملات میں قائم علی شاہ اتنے ماہر ہیں کہ شاید ہی پاکستان میں کوئی دوسرا فرد ایسی مہارت رکھتا ہو، آج بھی جب ان کے سامنے 1973 کے دستور کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے، یہ پرجوش ہوجاتے ہیں، ان کی آواز میں تیزی آجاتی ہے اور یہ بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا دستور نہیں جو بیک وقت پارلیمانی بھی ہو، اسلامی بھی ہو، جمہوری بھی ہو، جس میں ہر طبقے کے حقوق کا خیال رکھاگیا ہو۔

کراچی یونی ورسٹی کا یہ طالب علم منکسرالمزاج ہے، جو عہد کر لیتا ہے، ساری عمر نبھاتا ہے، سندھ مسلم لاء کالج میں زمانہ طالب علمی \"q3-1\"میں ان کے ایک پروفیسر تھے، ان کا نام ذوالفقارعلی بھٹو تھا، استاد کو اپنا ایسا استاد مانا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہوگئی، استاد اور شاگرد کا یہ رشتہ آج تک قائم ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں قائم علی شاہ پر بدترین تشدد ہوا، ان کو جیل میں ڈال دیا گیا، ان کی جائیداد چھین لی گئی، ان کے خاندان کے افراد کو پابند سلاسل کردیا گیا مگر استاد اور شاگرد کا یہ رشتہ نہیں ٹوٹا، ان کےبھتیجے پرویزعلی شاہ کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ضمیر کا قیدی قراردیا، یہ پوراخاندان بھٹو سے محبت کی بھینٹ چڑھ گیا مگر مجال ہے کہ کسی نے اف تک کیا ہو۔

اور خاندان بھی کیسا، ان کی ایک صاحبزادی نفیسہ شاہ جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، انہوں نے آکسفورڈ یونی ورستی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے، ان کے صاحبزادوں میں ڈاکٹر، انجینئر، لیکچرارزاور سائنس دان ہیں، کوئی ایسا فرد نہیں، جس نے اپنی ذاتی قابلیت کی بنیاد پر انفرادی حیثیت میں خود کو نہ منوایا ہو، سید اسد علی شاہ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس آف پاکستان کے صدر جبکہ انٹرنیشنل فیڈریش آف اکاؤنٹس کے رکن اور اقوام متحدہ کے ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ماہرین میں شامل ہیں۔

ایوب خان کےزمانے میں ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین منتخب ہونے والے قائم علی شاہ سات مرتبہ سندھ اسمبلی کے رکن جبکہ ایک ایک \"q11\"مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر رہے ہیں، تین مرتبہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے قائم علی شاہ 90کی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر تھے، ان سے زیادہ سینئراور تجربہ کار سیاست دان پاکستان میں کوئی اور نہیں ہے مگر ہمارے یہاں بدقسمتی سے تجربہ کار اور بزرگ افراد کی عزت نہیں کی جاتی، یہ مغرب ہوتا تو شاید قائم علی شاہ لیجنڈ ہوتا۔

قائم علی شاہ 1988میں ایک سال اور چند ماہ کے لیے سندھ کے وزیراعلیٰ بنے، سیاسی اعتبار سے دوسری وزارت اعلیٰ سے ان کا حقیقی دوراقتدار شمار کیا جاتا ہے جب ان کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملا ، اس لحاظ سے آٹھ سالوں میں قائم علی شاہ نے سندھ کو کیا دیا، یہ دیکھا جائے گا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سندھ میں گزشتہ آٹھ برسوں میں اتنے میگاپراجیکٹس مکمل ہوئے ہیں، جتنے سندھ کی پوری تاریخ میں نہیں ہوئے، تعصبات کوبالاتر رکھ کر موازنہ کیا جائے تو کسی دوسرے صوبے میں اتنا ترقیاتی کام نہیں ہوا کہ جتنا سندھ میں ہوا ہے، قائم علی شاہ نے صرف اپنی ذاتی کردار کشی کرنے والے سطحی حریفوں کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ سندھ کی کرپٹ بیوروکریسی کا بھی مقابلہ کیا ہے،یقینا قائم علی شاہ بہت ساری جگہوں پر ناکام ہوئے ہیں تاہم اگر اس کرپٹ سسٹم کے آگے کوئی ناتجربہ کار ہوتا توایک دن میں اسے بیچ دیا جاتا۔

ایوان میں صرف قائم علی شاہ نہیں سوتے بلکہ تمام وزرائے اعلیٰ کی فوٹیج موجود ہیں، جن میں وہ اعلیٰ سرکاری تقریبات کے دوران اونگھتے \"qaim\"نظرآتے ہیں مگر اس معاملے میں جو ذلت قائم علی شاہ کو ملی ہے، اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔

پنجاب میں اگر گٹر کے ڈھکن نہ لگیں تومحکمہ بلدیات ذمہ دار ہے، خیبرپختونخوا میں اگر اسپتالوں کا نظام خراب ہو تو محکمہ صحت ذمہ دار ہے، بلوچستان میں اگر بدامنی ہو تو سیکیورٹی فورسز ذمہ دار ہیں مگر سندھ میں یہ ساری ذمہ داری قائم علی شاہ کی ہے، اگر ٹریفک بھی جام ہوجائے تو میڈیا کورس کی شکل میں سائیں سرکار پرلعن طعن کرتا ہے۔

کراچی میں جون کی آٹھ تاریخ کو ائیرپورٹ پر حملہ ہوا، اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد قائم علی شاہ ائیرپورٹ کے باہر کھڑا تھا اور میڈیا کورس کی شکل میں اس تنہا شخص کو واقعے کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا، گو ائیرپورٹ وفاقی سیکیورٹی فورسز اور وفاقی وزارت داخلہ کا معاملہ ہوتا ہے مگر اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ گولیاں چلانے میں مصروف دہشت گردوں سے زیادہ مہلک انسان قائم علی شاہ ہے، وہ سب کے سوالوں کا جواب دیتا رہا اور اس کے ہر جواب سے میڈیا والے اپنے اپنے معنیٰ نکال کر اس کی تذلیل کرتے رہے مگر وہ ساری رات وہاں کھڑا تھا۔

یہ اکتوبر کی بات ہے، 2014 کا ہی سال تھا، جب کراچی میں کچی شراب پینے سے درجنوں ہلاکتیں ہوئیں، کسی معاملے میں قائم علی شاہ سی\"q33\" ویو پہنچے، اس وقت تین نیوزچینلز کے نمائندگان وہاں موجود تھے، کچی شراب سے ہونے والی ہلاکتوں پر بات ہوئی تو قائم علی شاہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ بھی شہید ہیں، اس وقت ایک نیوزچینل کا کیمرہ قائم علی شاہ پر فوکس تھا، قائم علی شاہ نے کہا کہ مذاق کررہا ہوں، کہیں چلامت دینا، تینوں رپورٹرز اور کیمرہ مین بھی ہنسنے لگے اور کہا کہ مذاق بھلا کون چلاتا ہے۔

قائم علی شاہ علی الصبح اپنی سرکاری سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں، یہ واقعہ بھی نوبجے سے دس بجے کے درمیان کا ہے، ان تینوں رپورٹرز میں سے ایک رپورٹر مجھ جیسے ایک ناہنجار ایڈیٹر کے پاس آیااور یہ سب بتانے لگا، میرے جیسے ایک نامعقول صحافی نے کہا کہ یہ تو بڑی چیز ہاتھ لگی ہے، ویڈیو چیک کی، اس میں سےمذاق پر تبصروں والے کلپ کو ہٹایا اور صرف شہید والا کلپ چلادیا،قائم علی شاہ کا ریکارڈ لگنا شروع ہوگیااور آج تک لگ رہا ہے مگر جب جب یہ ریکارڈ لگتا ہے، مجھے وہ کلپ یاد آجاتا ہے۔

کاش کہ وہ ادھورا کلپ کوئی پورا کردے۔


اسی بارے میں

قائم علی شاہ کو ہٹانا ایک غلط فیصلہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments