نسلوں کے مقروض


میرا اور میرے ہم عمر تمام ہی لوگوں کا تعلق اس گروہ سے ہے جس گروہ نے ایک ایسی صدی میں آنکھ کھولی جسے نوع انسان کی ترقی، اس کے طرز زندگی اور اس کے کمال کی جانب کھلنے والے دروازے کی کھوج کی صدی کہا جاسکتا ہے۔ یہ وہ صدی تھی جس میں علم و حرفت، عقائد و نظریات، فنون و فکر نے ایسی انگڑائیاں لیں کہ تاریخ انسانی دنگ رہ گئی۔ یوں لگتا تھا جیسے علم اپنے تمام راز وا کرنے کے لئے بیسویں صدی کے انتظار میں کب سے تڑپ رہا تھا۔

یہ صدی ایک جانب سائنسی ترقی کے ذریعے انسانی ذہن کے چودہ طبق روشن کر رہی تھی تو دوسری جانب زمینی حالات، سیاسی منظر ناموں اور مہم جوئیوں سے دنیا کے کینوس پر ایسے نقوش بھی بناتی جارہی تھی، جس کے اثرات کو شاید آنے والی کئی صدیوں پر محیط رہنا تھا۔ کبھی سلطنت ایران اور روم کے دور سے چلی آنے والی سپر پاور کے منصب کے حصول کی جنگ اپنے منطقی انجام پر پہنچتی دکھائی دینے لگتی تو کبھی گلوبل ویلیج یعنی عالمی معاشرتی یکسوئی کے تصور سے ایک ہی طرز حیات کی جانب کھنچتی محسوس ہونے لگتی۔ غرض کہ ہم وہ خوش نصیب ہیں جنھوں نے ایڈیسن کے ایجاد کیے ہوئے پہلے بلب کے خاکے سے لے کر جدید ترین ایل ای ڈی تک کی روشنی میں اپنی راہ کا تعین کرنے کا لطف اٹھایا ہے۔

یہ جو کچھ اوپر بیان ہوا ایک انداز سے دیکھا جائے تو نہایت پرکیف اور ہمیں فخر سے بھر دینے والے احساس کا منبع ہے، مگر اگر بالغ نظری، حساسیت اور انسانی درد رکھنے والی آنکھ سے اس منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ ہمارے رگ و پے میں ایک ایسی ٹیس کے پیدا ہونے کا باعث بن سکتا ہے، جو ہماری راتوں کی نیند اور دن کے چین و قرار کو سرے سے ناپید کردینے کے لئے کافی ہے۔ ہوسکتا ہے قارئین میں سے بہت سے دوستوں کا ذہن اطراف میں دوڑ لگانے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہو کہ اتنی حسین روایات کی امین نسل بھلا اپنے لاشعور پر کون سا ایسا بوجھ لئے ہوسکتی ہے جس سے اس کے احساس کی کمر خم ہوسکے۔

یقین کیجئے ہے ایک ایسا درد اور ایک ایسا قرض جسے ہم نے اپنے وجود میں جذب کرکے اس سے نظریں چرا لیں۔ اور وہ قرض ہے اقدار کا قرض۔ انسانیت اخلاقیات اور علم دوستی کا وہ قرض جسے ہمارے اجداد نے پچھلی صدیوں سے ہم میں منتقل تو کیا، پر ہم نے شاید اس قرض کو لیا ہی اس نیت سے تھا کہ اسے واپس نہیں کرنا، یا شاید ہمارے اجداد نے ہم تک اس قرض کو منتقل کرتے ہوئے اس کے ساتھ اس احساس کی منتقلی میں کوئی کسر چھوڑ دی کہ صدیوں کے مسافر اپنی راویات کے امین اور آئندہ آنے والی نسلوں کے مقروض ہوا کرتے ہیں۔

اگرصرف سرسری سی نظر ہی اپنی بچپن پر ڈالیں اور اپنے والدین اور اطراف کے اخلاقی، فکری اور انسانی درد رکھنے والے رکھ رکھاؤ کو یاد کریں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ماضی کا وہ لطف جو کبھی کبھی ہمارے دل اور یادداشت میں آکر کچوکے لگاتا ہے، وہ درد کسی موسم کے کھوجانے یا بچپن کی لا ابالی فطرت سے محروم ہوجانے کا نہیں، بلکہ اپنی زندگی سے ان اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے نکال پھینکنے کا ہے جو ہمارے بزرگوں نے صدیوں کے سفر کے اختتام پر ہمارے حوالے کیا تھا، کیوں کہ ہم نے اس صدی میں قدم رکھنا تھا جب نفسا نفسی، غیر انسانی اقدار، بے دردی، تعصب اور بے ہنگمی کا دور دورہ ہونا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ میری اس فکر کو بہت سے احباب قدامت پسندی یا دقیانوسیت کی طرف کوئی دعوت سمجھیں، مگر اس خیال کو اپنے ذہن میں آنے سے پہلے اگر صرف ایک بار گزرے دنوں کی محافل، بزرگوں کی شفقت، ان کے علم کو اپنی اگلی نسل میں منتقل کرنے کے نت نئے اندازوں، خاندان کے مضبوط گٹھ بندھنوں، دوستوں کے ساتھ گزری شاموں اور ان کی حسین محفلوں، علم و ادب سے دوستی کے ان مناظرکو یاد کرلیں تو شاید ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہونے سے یک دم رک جائے۔

اس دور میں فیس بک اورواٹس ایپ کی تیز ترین رابطے کی سہولت تو نہیں تھی مگر قلمی دوستی کے نام پر ایک ایسا عجیب و غریب مشغلہ موجود تھا جہاں ہزاروں میل دور بیٹھے دوست ہفتوں ہفتوں اپنے لکھے ہوئے ایک ایک جملے کے اثرات کا نتیجہ پڑھنے کے منتظر رہتے تھے۔ اس دور میں اسمارٹ فون کے نام پر ہر وقت ساتھ موجود چلتی پھرتی تفریح تو نہیں تھی مگر، ماں باپ کی شفقت سے ہر وقت کا ربط، رشتے داروں کے ساتھ کی لذت اور دوستوں کے وجود کی راحت ہمہ وقت اپنے سحر میں مبتلا رکھتی تھی۔

یقین کیجئے آج مجھ جیسے ایک متوسط سے گھرانے میں چھ سو سے زائد ٹی وی چینل آتے ہیں، مگر شاید ہی کوئی ایک پروگرام ہو جو پی ٹی وی کے آٹھ بجے سے نو بجے تک آنے والے اس ڈرامے کی طرح پورے گھرانے کو ایک ساتھ باندھ کر بیٹھنے پر مجبور کرسکے، حالانکہ ان میں سے بعض ڈرامے یا پروگرامز تو وہ تھے جن کا کافی حصہ اکثر انتظار فرمائیے کی نظر ہوجایا کرتا تھا، مگر مجال ہے کہ خاندان والوں اور محلے والوں کے اس مضبوط رشتے میں کسی قسم کا کوئی وقفہ پیدا ہوتا ہو۔

ٹھیک ہے کہ وہ سب بہت حسین اور بے مثال تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے اب کریں کیا۔ ؟ نہ پلٹ کر اس دور میں جاسکتے ہیں، نہ اتنی محنتوں کے بعد حاصل کی گئی ٹیکنالوجی سے بھرپور اس زندگی سے پیچھا چھڑانا ہی کوئی عقل مندی کی بات ہو سکتی ہے۔ پھر آخر اس انحطاط سے کیسے گلو خلاصی ہو؟

ہوسکتا ہے کچھ معاشروں میں یہ لفظ عجیب مفہوم رکھتا ہو، پر مجھے ایسے الفاظ سے نہ کوئی عار ہے نہ بیر۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے، کہ ہم ”بیچ والے“ ہیں، یعنی دو صدیوں کے بیچ کا پل۔ میانہ روی اور درمیان کی راہوں کی اہمیت کا جتنا ہمیں احساس اور ادراک ہونا چاہیے شاید اور کسی کو بھی نہیں۔ ہمارے دل و ذہن امین ہیں اس صدی کے ان اقدار کے جو محبتوں کی پیامبر تھیں، جہاں شادی بیاہ کی محافل کا انتظار یہ سوچ کر کیا جاتا تھا کہ کئی کئی دن اپنے احباب اور عزیز رشتے داروں کی محبتوں کے سائے میں گزریں گے۔

ہمیں ان اقدار کو زندہ کرنا ہے، سب کچھ پرانا نہیں، مگر جدید انداز میں قدیم ثقافت کا ہلکا پھلکا تڑکا تو لگ ہی سکتا ہے۔ شادی کی محفلوں میں سکھی سہیلیوں کے ڈھولک کی تھاپ تو زندہ رکھی ہی جاسکتی ہے۔ محلوں میں دوستوں کی محافل، شام کی بیٹھکوں سے اپنے بچوں کو متعارف تو کرایا جاہی سکتا ہے۔ شاذ و نادر کی قید سے آزاد ہوکر اپنے بزرگ رشتے داروں کی ملاقات کو ہفتہ وار یا مہینہ وار تو یقینی بنا ہی سکتے ہیں۔ اپنے کزنز سے ساری رنجشوں کو مٹا کر ملاقات کا پہلا قدم تو اٹھا یا جاہی سکتا ہے۔ کوئی آپ کے آستانے پر حاضری دینے آئے اس کا انتظار کیے بنا خود سے عزیزوں کی احوال پرسی کے لئے تو جایا جاہی سکتا ہے۔ سرد یوں کی راتوں میں کچھ وقت اپنے بچوں کے لئے نکال کر انھیں اپنی دادی نانی، امی ابو سے سنی کچھ الف لیلوی داستانیں یا اپنے بچپن کے دور کی رعنائیوں سے متعارف تو کرایا جاہی سکتا ہے۔

یہ سب کچھ تب ہوسکتا ہے، جب ہم اپنی اقدار کی امانت داری کے احساس کو سمجھیں خود کو اکیسویں صدی کی ایک مشین کی جگہ وہ انسان سمجھیں جو بیسویں صدی میں پیدا ہوا تھا، وہ بیسویں صدی جب انسان انسان تھا، مشین نہیں۔ یہ نسلوں کا قرض ہے جسے اتارے بغیر چلے گئے تو اپنی نسلوں کو اس دنیا کے ایک ایسے حسین باب سے محروم رکھنے کا جرم کریں گے، جو ان کے لئے ایک بہترین تحفہ ہوسکتا ہے۔

علی رضا رضوی، کراچی
Latest posts by علی رضا رضوی، کراچی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).