کشمیر میں آگ۔۔۔ پتے لرزتے ہیں


\"aqdasہمارے بچپن میں پی ٹی وی پر کشمیر کا ایک سیگمنٹ ہوا کرتا تھا جس میں بھارتی حکومت کی کشمیر میں جارحیت اور مظالم کا تذکرہ ہوتا تھا۔ نصرت فتح علی خان صاحب کی آواز میں جانے کب ہوں گے کم، اور پس منظر میں کشمیر کی جلتی وادی کے مناظر دکھائے جاتے تھے۔

\”اے دنیا کے منصفو! کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو\” ہمارے دل کی آواز بن گیا تھا۔ میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی، یاسین ملک ہمارے ہیرو تھے۔ وہ ہیرو جو بھارت کے مظالم کے خلاف ڈٹ گئے، جنہوں نے ڈنڈے کھائے، جیلوں میں قید رہے مگر جھکنے سے انکار کر دیا۔

\”ہے حق ہمارا آزادی، ہم لے کر رہیں گے آزادی\” کی صدا سری نگر سے بلند ہوتی تھی اور دل ہمارے تڑپتے تھے۔

پھر مناظر بدلنے لگے۔ حکومتیں بدل گئیں، ترجیحات بدل گئیں، مسائل بدل گئے۔ ہم خود ایک جنگ کا حصہ بن گئے۔ پاکستان کا اپنا وجود خطرے میں پڑنے لگا اور کشمیر کہیں پس منظر میں چلا گیا۔ کشمیر کی جلتی وادی کی تصویر دھندلانے لگی۔ یوں لگنے لگا جیسے سب تھک گئے ہوں۔ سید علی گیلانی کی ہڈیاں ڈنڈے کھا کھا کر کمزور ہو گئیں، عمر فاروق کی روح اورچہرے پر جھریاں پڑنے لگیں۔ کشمیریوں کی تیسری نسل بھی آزادی لینے میں ناکام رہی ۔ اروندھتی رائے لکھتی ہیں کہ

\”لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت سرکار قتل کرنے کی ماہر ہے، میں سمجھتی ہوں کہ قتل کرنے سے زیادہ بھارت سرکار لوگوں کو تھکانے میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ مختلف حربوں سے آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دباتے ہیں، یہاں تک کہ لوگ تھک جاتے ہیں، مایوس ہونے لگتے ہیں \”۔

کشمیری بھی مایوس ہونے لگے، پاکستان نے بھی ہار مان لی ۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ نریندر مودی نے نواز شریف کو بھارت بلا کر نواز شریف کے سامنے یہ کہا کہ وہ کشمیر کا سپیشل اسٹیٹس ختم کرنے والے ہیں۔

مگر کشمیر میں جو آگ ماضی میں لگی تھی اس کی ایک چنگاری کہیں راکھ کے نیچے دبی رہ گئی ۔ وہ چنگاری اپنے جنون کی حرارت سے دہکتی رہی۔ اور اب یہ چنگاری بھڑک اٹھی ہے۔ جتنا پانی مودی سرکار نے کشمیریوں کی امیدوں پر ڈالا تھا، اِس چنگاری نے اس پانی میں بھی آگ لگا دی ہے۔ اس چنگاری کا نام ہے برہان مظفر وانی۔

\"burhan4\" 2010 میں بھارتی فوجیوں نے 112 کشمیریوں کو شہید کیا۔ اکتوبر 2010 کی بات ہے جب پندرہ سالہ برہان مظفر وانی اپنے بڑے بھائی خا لد وانی اورایک دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر اپنے آبائی علاقے ترال میں گھوم رہے تھے کہ ایک فوجی چوکی پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ برہان کی پندرہ سالہ زندگی میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ کسی بے گناہ کشمیری شہری کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ بہت سے کشمیری خاموشی سے یہ ظلم سہتے جا رہے تھےلیکن برہان وانی نے یہ ظلم سہنے سے انکار کر دیا۔ عبداللہ حسین نے اپنی کتاب اداس نسلیں میں شاید کسی برہان وانی ہی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ

\”دنیا کی ہر جنگ کا آغاز اسی طرح ہوا۔ ملکوں کی نہیں لوگوں کی جنگ کا۔ چند لوگ جن کے سر پر خون سوار تھا۔ محکومیت اورظلم سے سوئے ہوئے دماغ اورہاتھ پاؤں تقریروں اورجلسے جلوسوں سے نہیں جاگتےاور حکومت جس کی جڑیں مدتوں سے مضبوط ہو رہی ہوں، ان باتوں سے کبھی نہیں چونکتی۔ وہ ہنگامے سے چونکتی ہے اورگو جنگ کو ختم کرنے اور جیتنے والوں نے ہمیشہ ان چند لوگوں کی مذمت کی اورانہیں برا بھلا کہا، لیکن بعد میں آنے والوں نے تاریخ کی کتابوں میں لکھا کہ وہ لوگ جنہوں نے جنگ جیتی اسے کبھی شروع نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے دماغ میں خون تھا۔ جو شروع کرتے ہیں ان کے بازؤں اور سینوں میں خون ہوتا ہے\”۔

آپ خود سوچیں کہ ایک پندرہ برس کا نوجوان، جس کا تعلیمی ریکارڈ اچھا ہو، جو کرکٹ شوق سے کھیلتا ہو، جو اپنے بھائی کے ساتھ وادی کی سیر کو جاتا ہو وہ کیونکر خود کو موت کے منہ میں دھکیلے گا؟ جب پہلی بار اس نے بندوق اٹھائی ہو گی تو اسے بھی معلوم ہوگا کہ ایک دن ایسی ہی کسی بندوق کی گولی اس کے سینے کے پار ہوگی ۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک گولی اس کے بھائی خالد کے سینے کے پار اتری۔ خود برہان کے والد کا کہنا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی کشمیری جب جہاد کے لیے نکلتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ وہ چھ سے سات سال تک ہی زندہ رہ پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی جانتے تھے کہ ان کے بیٹے کی لاش چند سالوں میں گھر آئے گی۔ اس بہادر باپ نے ایک نہیں، دو جوان بیٹوں کی لاشیں وصول کی ہیں۔ کشمیر کے ہر گھر میں کوئی بہادر باپ، ماں، بہن، بیوی، بیٹا یا بیٹی اپنے پیاروں کو دفنا چکے ہیں، اور نجانے کب تک دفناتے چلے جائیں گے۔

بھارتی فورسز کے مطابق برہان وانی ایک دہشت گرد تھا۔ کشمیری اس کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے جنوبی افریقہ کے باشندے

\"Srinagar:

نیلسن منڈیلاکو اپنا ہیرو مانتے تھے، مگر دنیا انہیں دہشت گرد قرار دیتی تھی۔ چی گویرا، مارٹن لوتھر کنگ، ماؤزے تنگ کل دہشت گرد تھے، مگر آج دنیا ان بہادری کی مثالیں دیتی ہے۔ آئرلینڈ کی آزادی کی جنگ لڑنے والے تاج برطانیہ کے لیے دہشت گرد تھے مگر آج بھی آئرش گیتوں میں ان کی بہادری کے قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ گلین گرین والڈ کے مطابق

\”دہشت گرد کی تعریف عالمی طاقتوں کے مفادات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ جو ان طاقتوں کے مفادات میں رکاوٹ کھڑی کرے وہ دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ جن کو آج دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ان میں سے بہت سوں کو ماضی میں انہی طاقتوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے\”۔

برہان وانی کو دہشت گرد تو کہا جا رہے مگر کیا اس کے جنازے میں شرکت کرنا بھی دہشت گردی ہے؟ کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا موت قرار پائی؟ تین دن سے کشمیر میں کرفیو لگا ہے، اب تک 30 لوگ شہید کردئیے گئے ہیں، انٹرنیٹ اور موبائل فون بند ہیں، لوگ گھروں میں محصور ہیں، مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں مگر پھر کشمیریوں کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ کشمیری اب بھی اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہےہیں۔ گولیاں کھا رہے ہیں مگر آواز اٹھا رہے ہیں۔ کشمیر میں قانون کی سر عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انسانوں کا تو کیا وہاں جنگل کا بھی قانون نہیں ہے۔

جس بے دردی سے جوان لاشے کشمیر میں گرائے جا رہے ہیں وہ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بھی نفی ہے جس میں بھارتی افواج اور اسپیشل فورسز کو ماورائے عدالت قتل سے منع کیا گیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق اگر کوئی ریاست کے خلاف کارروائیوں کا حصہ ہے اسے بھی قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے عدالت میں پیش کیا جائے گا اور وہیں اس کا مقدمہ لڑا جائے گا۔ حقیتاً کشمیر میں ایسے کسی قانون پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

کشمیر کے معاملے میں جہاں پاکستان نے بہت سی غلطیاں کی ہیں اور کشمیر کا کیس کمزور کیا ہے وہیں بھارت نے مظالم کی کئی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ کشمیریوں کا موقف مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ بھارت کشمیریوں کے جائز مطالبات کو پاکستان کی لگائی ہوئی آگ کہہ کر زیادہ دیر تک اس مسئلے کو چھپا نہیں سکے گا۔ اگر یہ صرف پاکستان کی لگائی ہوئی چنگاری ہوتی تو اب تک بجھ چکی ہوتی ۔ یہ تو کشمیریوں کا جنون ہے، ان کا ولولہ ہے جو کسی کے کہنے سے جلتا یا بجھتا نہیں۔ یہ تو رہتا ہے راہ کا نشان بن کر، نور کی زبان بن کر، صبح کی آذان بن کر۔ یہ ان کا وہ حق ہے جو وہ لے کر رہیں گے۔ ظالم ہر حربہ آزما لے مگر کشمیر کی وادی پر آزادی کا پرچم ضرور لہرائے گا۔ بقول جالب

ہے وقت یہی یارو، جو ہونا ہے ہو جائے

کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

بھارت کو چاہیے کہ اس حقیقت کو سمجھے کہ کشمیریوں کو اب اور دبایا نہیں جا سکتا۔ جنہیں کشمیری اپنا لیڈر مانتے ہیں انہیں قید کر کر \"11kashmir1-master768\"کےعمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے لوگوں کو مسلط کر کے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیریوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر ان سے ووٹ دلوا کر، دنیا کو سب اچھا ہے کی تصویر دکھانے سے سب اچھا ہو نہیں جاتا۔ لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں کو کشمیر بھیجنے سے آزادی کے متوالوں کو بھگایا نہیں جا سکتا۔ لوگوں کو امنگوں کو پاکستان کی سازش کہہ کر مٹا یا نہیں جا سکتا۔ سوشل میڈیا، ٹی چینلز اور اخبارات میں برہان وانی کو گالی دے کر، اسے دہشت گرد قرار دے کر اس کا پیغام بھلایا نہیں جا سکتا۔

پاکستان کو بھی چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھائے، اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے مگر پھر سے کوئی لشکر طیبہ جیسا تجربہ نہ کرے۔ یہ کشمیریوں کی جنگ ہے اور ان کو اپنی جنگ خود لڑنے دی جائے۔ پاکستان کی عسکری مدد کے بغیر بھی کشمیری اپنے حق کے لیے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کشمیریوں کی یہ نئی نسل یہ جنگ جیتے گی کیونکہ

حق ہے ان کا آزادی

یہ لے کر رہیں گے آزادی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments