پاکستانی دستاویزی فلم انڈس بلُوز کو انڈیا میں دو ایوارڈز سے نوازا گیا


پاکستانی ہدایت کار جواد شریف کی دستاویزی فلم انڈس بلُوز کو انڈیا میں جاری جے پور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دو اہم ترین ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ دونوں ایوارڈ فلم کو بیسٹ فیچر ڈاکیومنٹری اور بیسٹ سینمٹوگرافی کے لیے ملے ہیں۔

جواد شریف کی دستاویزی فلم اُن لوک موسیقاروں کے بارے میں ہے جو اپنا فن حرام سمجھ کر اور دباؤ میں آکر چھوڑ رہے ہیں۔ اس فلم کے لیے جواد شریف اور ان کی ٹیم کے باقی ممبران نے پاکستان کے مختلف صوبوں اور شہروں کا دورہ کیا اور ان سب موسیقاروں سے بات کی جن کو پاکستان کی زیادہ تر عوام بھول چکی ہے۔

موسیقی کے حوالے سے یہ بھی پڑھیے

چار زبانوں میں گانے والا نابینا لوک گلوکار

خیبر پختونخوا کا پشتون لوک رقاص

چوتھے سعودی فلم فیسٹیول میں انتہاپسندی پر منبی فلم کو ایوارڈ

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جواد شریف نے کہا کہ راجستھان کے شہر جے پور میں جاری فلم فیسٹیول میں کافی سخت مقابلہ ہونے کے باعث انھیں امید نہیں تھی کہ ان کی فلم سرِ فہرست آئے گی۔’جب یہ خبر ملی تو ہماری پوری ٹیم کو بہت خوشی ہوئی۔ اور ساتھ یہ بھی لگا کہ وہاں پر رہنے والے ہماری فلم کے پیغام کو سمجھ سکتے ہیں۔‘

دوسری طرف پاکستان میں اب تک اس فلم کا صرف ٹریلر ہی ریلیز ہوا ہے جبکہ پوری فلم اب تک منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔

اسی طرح جواد نے بتایا کہ فلم کو ریلیز کرنے کے لیے انھوں نے سینسر بورڈ کے دو سے تین چکر لگائے ہیں لیکن معاملہ اب تک حل نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلم میں موجود چند مناظر اور کہی گئی باتوں کو سینسر بورڈ نے’حساس‘ قرار دیا ہے جس کے بعد وہ اس عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

’اس کی ایک تو بہت بڑی وجہ یہ سوچ ہے کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ ہمارا مذہب موسیقی سننے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ساتھ یہ بھی ہے کہ یہ ایک انڈیپنڈنٹ فلم ہے اور اس طرح کی فلموں کی معاشی سپورٹ بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ سامنے نہیں آتیں۔‘

جواد شریف نے بتایا کہ دستاویزی فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اس فلم کو صرف بننے میں ہی دو سال لگ گئے۔

’پشاور کی ایک یونیورسٹی میں جب ہم پاکستان کے واحد سازندہ نواز کا انٹرویو کرنے پہنچے تو وہاں چند طالبعلموں نے ہمیں روک لیا۔ ہم نے انھیں کہا کہ یہ آخری ساز ہے اور یہ اس کو بجانے والے آخری سازندہ نواز ہیں، اور ہمیں اسے محفوظ کرنا چاہئیے۔ ہمیں آگے سے جواب ملا کہ گانا بجانا ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے۔‘

لیکن اسی بات پر انھوں نے تہیہ کیا کہ انھیں اس فلم کو مکمل کرنا ہے۔ ’ہم نے سوچا کہ اگر یہ ہماری ثقافت نہیں ہے تو پھر ہماری ثقافت کیا ہے۔‘

اسی طرح انڈس بلُوز کی کہانی میں وقت کے ساتھ ساتھ بدلاؤ آیا۔ ’ہم نے جہاں جہاں سفر کیا تو ہر کردار کے ساتھ ہماری کہانی میں بدلاؤ آتا گیا ہے۔ کیونکہ جو لوگ اس ثقافت اور موسیقی کو اپناتے تھے اس کا جشن مناتے تھے، انھوں نے اس کو حرام کہہ کر چھوڑ دیا ہے۔‘

اس کے ساتھ ہی جو لوگ لوک موسیقی کو آگے لے کر جا رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی ایک المیہ ہے۔ اور وہ المیہ یہ ہے کہ وہ معاشرے کی طرف سے دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کو ہر طرف سے باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ وہ جو رزق کماتے ہیں وہ حلال نہیں ہے اس لیے وہ کوئی اور کام ڈھونڈ لیں۔‘

گلگت بلتستان میں کسی حد تک موسیقی اور موسیقاروں کو اپنایا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کے باقی حصوں میں موسیقاروں اور ان سے جڑی موسیقی کا بہت برا حال ہے۔ ’یہ کام بہت ہی نچلی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم اس پر اب آواز نہیں اٹھائیں گے تو نا یہ لوگ رہیں گے اور نا ہی ان سے جڑی یہ موسیقی رہے گی۔ ہم موسیقی سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں اس سے ہماری یادیں ہماری شناخت وابستہ ہے۔‘

تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp