ابن رشد کے پانچ سیاسی و سماجی افکار


انسانوں کی سیاسی و اجتماعی امور کے باب میں عقلی اور استدلالی مطالعات کا نام ’سیاسی فلسفہ‘ یا ’فلسفہ سیاست‘ ہے۔ اس موضوع پر لاک، سٹوارٹ مل، ہابس، روسو، کارل مارکس اور ان کے علاوہ متعدد مغربی دانشمندوں کے آراء معروف ہیں۔ ان مفکرین سے بھی پہلے افلاطون اور ارسطو نے بھی براہ راست اور مستقل ان مسائل سے بحث کیا ہے۔ فلسفہ سیاست یعنی اس خاص نوع کا تعقل وتفکر اور بحث واستدلال ہمیشہ سے ہر انسانی تمدن کے لیے غور وفکر کا موضوع رہاہے بشمول مسلمانوں کے۔

جب اس فلسفہ کے ساتھ اسلام اور اسلامی کی قید بھی اضافہ کی جائے تو اس سے اس علم میں ایک نیا رنگ بلکہ ایک پیچیدگی بھی پیدا ہوجاتی ہے، وہ پیچیدگی یہ ہے کہ پہلے خود اسلام اور سیاست کا باہمی تعلق بھی وضاحت اور تعین کا محتاج ہو جاتا ہے اور اس لحاظ سے اس علم کی ایک جدید تعریف وضع کرنی پڑتی ہے، اس تناظر میں ’اسلامی فلسفہ سیاست‘ کی جو متفقہ اور سب کے لیے قابل قبول تعریف وضع کی جاسکتی ہے، وہ ہے اسلام کا فلسفہ سیاست یعنی مسلم مفکرین کے طرف سے سامنے آنے والے سیاسی افکار۔

ابن رشد اندلسی جن کا بنیادی تعارف جمود اور خشک زہد کے مقابلے میں عقلیت اور حرکیت کی علمبرداری ہے، خصوصا غزالی کے فلسفہ شکن فکر کی تنقید میں ابن رشد کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے، یہاں تک سمجھا جاتا ہے کہ اگر ابن رشد سامنے نہ آتا تو شاید غزالی، جنہوں نے فلسفہ کے بیس مسائل کو بنیاد بنا کر اس علم پر شدید حملہ کیا تھا، مسلم دنیا سے فلسفے کی بساط ہمیشہ کے لیے لپیٹ چکے ہوتے، لیکن اس معروف حیثیت کے علاوہ ابن رشد کا ایک اہم حوالہ ان کے سیاسی افکار ہیں، گوکہ اس موضوع پر ابن رشد کو بہت کم زیر بحث لایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میدان میں بھی ابن رشد مسلم مفکرین میں سے ابو نصر فارابی جیسے دانشمندوں کے صف میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔

ابن رشد نے ایک درجن سے زیادہ تراجم اور مقالات لکھے ہیں تاہم بنیادی طور پر ان کی کو ذاتی فکر پورے شرح وبسط کے ساتھ ان کی لکھی گئی کتابوں کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔

چونکہ ڈیجیٹل جرائد اور ان کے قارئین کا مزاج اختصار پسندی کاہے لہذا ہم تمہیدی اور مقدماتی بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے ذیل میں ابن رشد کے پانچ اہم سیاسی اور سماجی افکار پیش کررہے ہیں۔

( 1 ) مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں حکمران کی ذاتی اہلیت کا معیار یا تو خاندانی نسبت رہا ہے یا پھر اس سے گزر کر پارسائی اور تقوی شعاری کے ظاہری مظاہر، خلافت راشدہ کے اختتام کے بعد مسلمانوں میں خاندانی بادشاہتوں کا رواج کسی وبا کے طرح پھیل گیا۔ چاہیے بنوامیہ ہوں، بنوعباس ہوں، خلفاء فاطمی، مرابطین، سلاجقہ، اتابکان، عثمانی اور مغل، یہ سب کے سب مسلم جغرافیے کی مشرق سے لے کر اس کے مغرب، یعنی ابن رشد کے جنم بھومی، اندلس تک، مسلمانوں کی حکمرانی تمام تر خاندانی ملوکیتوں پر مبنی رہی۔

گویا کہ ہر مسلم خطہ میں ایک برہمن خاندان کی اجارہ داری رہی جو انسانوں کو مال مویشیوں کی طرح باپ سے بیٹے کو میراث میں منتقل کرتے رہیں۔ ابن رشد نے حق اقتدار کے لیے خاندانی نسبت اور ظاہری پارسائی کے دونوں پیمانوں کی کفایت کو تسلیم نہیں کیا، آج کے زمانے میں حکمران کے ذاتی اوصاف کی مسئلے کو چھیڑنا آسان ہے لیکن جس عہد اور ماحول کے ساتھ ابن رشد کا تعلق تھا، اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اس عہد میں حکمرانی کے مروجہ معیارات کو چیلنج کرنے کے لیے کس درجے کی ہمت اور کس سطح کی بصیرت درکار تھی۔

ابن رشد نے اُس زمانے کے رائج تصورات کے برعکس باقی تمام معیارات کا انکار کرتے ہوئے حکمران کے لیے حکمت اور کامل تعقل سے بہرہ مند ہونے کو نہ صرف ضروری شرائط میں سے ایک شرط قرار دیاہے بلکہ انہوں نے اس شرط کو اولین شرط کی حیثیت دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابن رشد پر زمین تنگ کردی گئی تھی اور انہیں جلاوطنی کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔

( 2 ) جبر و اختیار کا مسئلہ مسلم تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس سوال کا تعلق صرف علم الکلام میں اشاعرہ، معتزلہ اور شیعہ مکاتب کے درمیان معرکہ آرائی کا موضوع بننے کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ فقہ اور سیاست کے ساتھ بھی یہ مسئلہ براہ راست متعلق رہا ہے، مثلا فقہ میں کسی سے جبرًا طلاق لینے کو مؤثر سمجھنے سے خلیفہ کے ساتھ بالجبر بیعت کو بھی مؤثر سمجھنے راستہ کھولا گیا، نظم اجتماعی کی تشکیل میں انسان کے ارادہ واختیار کا معاملہ نظری علم کے مقابلے میں عملی علم کی اہمیت سے بھی متعلق ہوجاتا ہے۔

ابن رشد اپنے کتاب ’الضروری فی السیاسہ‘ میں انسان کے مجبوریت اور اور پابند ہونے کے بجائے اس کے ارادے اور اختیار کے آزادی کی بات کرتا ہے۔ وہ عملی علم کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے انسانی عمل کی اہمیت کی وکالت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ”عملی علم کا موضوع وہ افعال ہیں جو انسان سے صادر ہوتے ہیں اور ان افعال کا بنیاد انسان کا ارادہ واختیار ہے۔ ابن رشد کی رائے ہے کہ انسانی ارتقا محض انسان کے انسان ہونے کی وجہ سے خود بخود ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کے ارادے اور اختیار کے آزادانہ طور پر بروے کار رہنے کے مرہون منت ہے، نیز یہ کہ انسان کے ارادہ واختیار کا قوہ فعال ہونے کی صورت میں مزید مضبوط ہوجاتاہے جبکہ اس کو معطل رکھنے کی وجہ سے اس میں ضعف اور کمزوری آتی ہے کیونکہ ارادہ واختیار کی استعمال کے راستے سے انسان کی حرکت، اس کی مبدآ ہستی تک پہنچنے کی راستے میں معاون ثابت ہوتاہے ( التھافت التھافت صفحہ 225 )

( 3 ) ”سیاست فاضلہ“ اور ریاست فاضلہ سے مراد نظم اجتماعی کی وہ صورت ہے جو علم وفضل اور حکمت ودانش کے بنیاد پر استوار ہو۔ ابن رشد اس فن میں اپنے دوسرے پیشرووں کی طرح سیاست کے علمی بنیاد کی اہمیت پر زیادہ زور دیتا ہے، تاہم وہ کسی فرد کی ذات کو تمام کمالات کا مجموعہ اور مسند نشین حکمران کو عقل کل ثابت کرنے کے بجائے متفرق باصلاحیت افراد کی صلاحیتوں کو جمع کرکے انہیں امور مملکت کی انتظام میں استعمال کرنے کی ضرورت کو واضح کرتا ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں رائج پارلیمان کی موجودہ شکل کو ابن رشد کے اصطلاح میں وہی ”افاضل کی ریاست“ کہا جاسکتا ہے۔

( 4 ) ابن رشد معاشرے میں سچ کی ثقافت کے فروغ کو انسانی سعادت کا ایک ناگزیر عنصر سمجھتا ہے، تاہم لوگوں میں سچ بولنے کے فروغ اور جھوٹ سے نفرت پیدا کرنے کے لیے وہ ایک عجیب طرح کا بنیاد مہیا کرتاہے ( ہوسکتاہے آج کے مغربی ممالک کے سماج میں سچ بولنے کی رواج کی اساس بھی یہی ہو ) ابن رشد کہتے ہیں کہ انسان جب کائنات کا علمی اور مبنی برحقیقت شناخت حاصل کرتاہے تو اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ کائنات کا وجود حقیقی قوانین کے بنیاد پر قائم ہے، اس بنا پر انسان کائنات کے علم کا ”جیسا کہ حقیقت میں وہ ہے“ کا خواہاں ہوتا ہے، جب یہ ادراک انسان کو حاصل ہوجاتاہے تو خود انسان میں بھی اپنے قول وعمل میں سچ بولنے اور صداقت شعاری اپنانے کا مزاج پختہ ہوجاتا ہے۔ لہذا ابن رشد کہتے ہیں کہ انسان کو ٹھوس عقلی بنیاد زندگی کو دیکھنے کا معیار بنانا چاہیے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں اخلاقی بلندی پیدا کرنے کے لیے وہ فرضی قصے کہانیوں اور شاعرانہ تمثیلات سے کام لینے کو بھی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

( 5 ) ابن رشد سماج کی اصلاح اور اخلاقی ترقی کے لیے کسی بھی طرح کی جست لگانے اور انقلاب برپا کرنے کو نا ممکن سمجھتے ہیں، ان کا کہناہے کہ جس طرح انسان کے ذین میں نظری علوم راسخ کرنے کے لیے اس تعلیم دینی پڑتی ہے، چیزیں یاد کرانی پڑتی ہیں، اسی طرح انسانی رویئے اور اخلاقی سسٹم تبدیل کرنے کے لیے انہیں مثبت اقدار کی عادت ڈالنی پڑتی ہے اور یہ عمل تدریج اور ترتیب کے ساتھ ہی انجام پاتاہے نہ کہ انقلاب سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).