کنویں کا جادو


ساحل، احسن اور شعیب تینوں آپس میں بڑے گہرے دوست تھے۔ تینوں اوائل جوانی میں تھے اس لئے پڑھنے کے علاوہ سیر و تفریح اور گھومنے گھمانے میں مصروف رہتے تھے۔ ایک دن ساحل نے کہیں جنگل میں کسی خوبصورت جگہ پر جا کر کچھ وقت بتانے کا سوچا۔ جب اس نے یہ خیال شعیب اور احسن کے سامنے رکھا تو دونوں پر جوش ہو گئے۔

سو اس وقت وہ تینوں گاڑی پر سوار، مست ذہنوں کے ساتھ ہلا گلا کرتے جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ پکی سڑکیں ختم ہوئیں، کچے راستے شروع ہو گئے۔ جب کچے راستوں پر بھی جھاڑیوں اور دوسری رکاوٹوں کی وجہ سے گاڑی چلانا دشوار ہو گیا تو انہوں نے گاڑی روک کر پیدل ہی آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ چلتے چلتے آخر انہیں ایک خوبصورت سی جگہ پسند آ ہی گئی۔ یہاں قدرت نے خزانہ حسن خوب لٹایا تھا۔ ایک طرف ایک ندی بہ رہی تھے تو اس کے کنارے کافی جنگلی پھول اور درخت بھی موجود تھے۔

”ارے! وہ سامنے کیا چیز ہے؟“ احسن نے اچانک کہا۔ اس کی بتائی ہوئی سمت دونوں نے دیکھا تو چونک پڑے۔ اس ویرانے میں یہ انسان کے ہاتھوں بنی ہوئی ایک دیوار سی لگ رہی تھی۔ قریب جانے پر یہ دیوار ایک کنواں ثابت ہوئی۔ یہ کنواں کافی گہرا لگ رہا تھا۔ وہ اپنی اس دریافت پر کافی خوش ہوئے اور اس کے بارے میں تبصرے کرنے لگے کہ یہ کیسے اور کس نے بنایا ہو گا اس ویرانے میں۔ ساحل کو بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ ”کاش ہم اپنے ساتھ کچھ فاسٹ فوڈ بھی لے آتے۔

”میرا بر گر کھانے کو کافی دل کر رہا ہے۔“ ابھی ساحل نے یہ فقرے بولے ہی تھے کہ اچانک اس کے سامنے والے درخت کے پاس ایک برگر اپنے سارے لوازمات کے ساتھ آ گیا۔ ساحل کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے فوراً اپنے ساتھیوں کو اس بارے میں بتایا تو وہ بھی حیرت سے گنگ ہو گئے۔ ”شاید یہ کوئی جادوئی کنواں ہے جہاں پر جو بھی خواہش کی جائے تو پوری ہو جاتی ہے۔“ احسن سوچتے ہوئے بولا۔

شعیب بولا ”ابھی آزما لیتے ہیں اس کو۔ میری خواہش ہے کہ ابھی ایک آئی فون آ جائے“ ۔ فوراً سے پہلے ہی ایک آئی فون سامنے پڑا نظر آیا۔ اب تو تینوں دوستوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔

شعیب سب سے زیادہ پرجو ش تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم کچھ بھی اس کنواں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہی اس نے جلدی سے سوچا اور انوکھی فرمائش کر ڈالی۔ اچانک سے ایک خوبصورت سی لڑکی کہیں سے آ گئی اور شعیب مسکراتے ہوئے اس سے باتیں کرنے میں مصروف ہو گیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر تو ساحل کو جیسے ہوش آیا۔ سپورٹس کار کی جو خواہش اس کے دل میں برسوں سے پل رہی تھی اسے لگا اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

ساحل نے فوراً خواہش کی اور خواہش کرتے ہی ایک چمکتی دمکتی سپورٹس کار اس کے سامنے تھی۔ وہ فوراً ہی اس کے اندر بیٹھ کر اسے چھیڑنے لگا۔ احسن مسلسل سوچ میں گم تھا کہ یہ کیا چکر ہے۔ سوچتے ہوے اسے کچھ دیر گزری تو اچانک اسے ساحل کی چیخ سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ساحل جو پہلے گاڑی میں بیٹھا تھا اب نیچے گھاس پر گرا ہوا تھا۔ اور گاڑی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اتنے میں شعیب بھی بوکھلایا ہوا آ گیا۔ اس کے ساتھ والی خاتون بھی کہیں غائب تھی۔ ان کو آئی فون کا خیال آیا تو وہ بھی غائب تھا۔ ”شاید اس کنواں سے حاصل کی ہوئی چیزیں کچھ دیر کے بعد غائب ہو جاتی ہیں!“ احسن بولا۔

”ہاں لیکن سوائے ان کے جو کھا لی جائیں۔ میرے پیٹ میں موجود برگر تو غائب نہیں ہوا۔“ ساحل نے مسکراتے ہوے کہا۔ پھر انہوں نے مختلف چیزیں منگوانی شروع کر دیں۔ وہ جو بھی چیز منگواتے وہ آدھا گھنٹہ تک ان کے پاس رہتی پھر غائب ہو جاتی۔ ادھر سے واپسی کے دو دن بعد ہی وہ واپس اسی جگہ پر تھے۔ احسن نے دو دفعہ ان کے ساتھ آنے کے بعد انکار کر دیا۔

”تم کیوں نہیں آنا چاہتے ہمارے ساتھ۔ دیکھو ہم دنیا جہاں کی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں اس طرح۔“ انہوں نے اسے منانے کی کوشش کی۔ ”ہاں لیکن یہ سب نہ صرف عارضی ہے بلکہ ایک دھوکا بھی ہوتا ہے حقیقت میں ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ میں اس دھوکہ کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔“ احسن اپنی بات پر مصر رہا۔

ساحل اور شعیب نے کچھ دن اسے منانے کی کوشش کی پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ کر وہ اس کے بغیر ہی جانے لگے۔ وقت گزرتا رہا۔ احسن نے پڑھائی مکمل کرنے کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ اس نے شروع کے سالوں میں کافی مشکل وقت گزارا لیکن آہستہ آہستہ اس کے پیر جمتے گئے۔ وہ کاروباری دنیا میں ایک معروف نام بن گیا۔ بیوی بچے، گھر، دولت سب کچھ ہی اس کے پاس تھا۔ وہ خواہشات جو وہ زندگی کے اوائل میں رکھتا تھا اس سفر میں کب کی پوری ہو چکی تھیں۔ ایک دن جب وہ اپنے شاندار بنگلہ کے لان میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ اسے ملامت نے آن گھیرا۔ اسے پرانے دوست یاد آئے کہ ان کا کیا بنا ہو گا۔ اس نے ان سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا

کچھ دن کی تلاش پھر اسے اس جنگل میں لے گئی۔ وہ آگے بڑھتا ہوا کنواں تک پوہنچا تو دیکھا کی وہاں پہ ایک قبر تھی جس کے کتبہ پر ساحل کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ قبر کے نزدیک ایک بوڑھا شخص بھی بیٹھا تھا۔ ا س کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ حالت خراب تھی۔ احسن کو اسے پہچاننے میں تھوڑی دیر لگی۔

وہ بوڑھا اس کے گلے لگ گیا۔ یہ شعیب تھا۔ احسن کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے شعیب سے پوچھا کہ ان کا یہ حال کیسے ہوا اور ساحل کیسے مر گیا۔ جب تم چلے گئے تو ہم یہاں روز آنے لگے پھر آنے جانے کی زحمت سے بچنے کے لیے ہم نے شہر کے گھر بیچ کر کنوئیں کے بالکل پاس ہی گھر لے لیے۔ اب یم سارا دن کنواں کے پاس بیٹھ کر عیاشی کرتے۔ دنیا جہاں کی نعمتیں ہمارے پاس ہوتیں لیکن جب شام کو گھر جاتے تو خالی ہاتھ ہوتے۔ کچ عرصہ گزرا تو ساحل طرح طرح کے کھانے کھا کھا کر کافی موٹا ہو گیا تھا۔

پڑھائی اور کیریر کی فکر کیے بغیر ہم اس جنگل میں بیٹھ کر مزے کرتے رہے۔ ساحل کا موٹاپا بڑھتا جا رہا تھا لیکن وہ کنواں سے ملنے والے لذیز کھانوں کا عادی ہو چکا تھا۔ ایک دن اچانک وہ دل کی تکلیف میں مبتلا ہوا اور مر گیا۔ اس ویرانے میں ایک وہ ہی میرا ساتھی تھا۔ اس کے مرنے سے میرا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا۔ میں نے غصہ میں آ کے کنویں کو گرا دیا اور اب کئی سالوں سے یہاں پر ہی خود فراموشی کی زندگی گزار رہا ہوں۔

ساحل اور شعیب کی کہانی صرف ان کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی کہانی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں جادوئی کنویں بنا رکھے ہیں۔ وقتی آرام اور لذت کی خاطر ہم لوگ کنوئیں کے جادو کا شکار ہو چکے ہیں۔ کوئی بری عادت چھوڑنے کا معاملہ ہو یا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے درکار محنت کرنے کا معا ملہ، ہم کنوئیں سے ملنے والے وقتی آرام کو ترجیح دیتے ہیں اپنے مقصد کے لیے کی جانے طوالی سنجیدہ کوشش پر۔ اور نتیجتا ہماری زندگیاں ساحل اور شعیب کی طرح گزر رہی ہیں نا کہ احسن کی طرح۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).