روحی بانو: تری یاد آئی ترے جانے کے بعد


اِن پری زادوں سے لیں گے خُلد میں ہم انتقام

قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گیئں

مرزا غالب کا یہ شعر خدا جانے کس ضمن میں کہا گیا مگر اس کو روحی بانو جیسی خوب رو پری زاد کی ستائش میں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ عین ممکن ہے ان کی زندگانی میں کسی شوخ دل نے ایسا انہیں کہا بھی ہو۔ آج صبح سے سوشل میڈیا نیوز فیڈ میں روحی بانو کی خوبصورت تصاویر کے ساتھ “سیڈ”، “آر آئی پی”، “اوہ” اور دیگر ایسے ہی یک لفظی اظہارِ افسوس کے اسٹیٹس دیکھ کر جی بہت اداس ہوا۔

خدا جانے ہمارے معاشرے میں کس قسم کے انسان بستے ہیں جو جیتے جی تو کسی آرٹسٹ کی خبر نہیں لیتے اور پسِ مرگ انکا سوگ منانے لگتے ہیں۔ اور سوگ منانے کے چلن بھی عجیب ہوتے جا رہے ہیں جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا۔ جیسے ہی کسی نامور شخص کی موت کی خبر کا تیر چھوٹتا ہے اخباری کمانوں سے لوگ تیر سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اپنے موبائل فون کے میموری کارڈز کھنگالنے لگتے ہیں پھر ماضی میں کبھی مرحوم کے ساتھ کھنچوائی گئی ایک ایک تصویر کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ جس میں زندہ حضرات و خواتین سب سے بہتر لگ رہے ہوں ایسی تصویر سوشل میڈیا پر مرحوم کی فاتحہ خوانی کے لیے منتخب کی جاتی ہے ۔

مجھے روحی بانو کے ساتھ کسی کے اظہارِ محبت یا ان کی موت پر اظہارِ افسوس پہ ہرگز اعتراض نہیں مگر بات کچھ یوں ہے کہ جی بہت برا ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ روحی بانو نے کن حالات میں زندگی بسر کی اور اس وقت یہ لوگ کہاں تھے جب انہیں ہم سب کی محبت سے زیادہ یم سب کی مدد کی ضرورت تھی۔

لاہور میں بتائے نو برس میں میرا زیادہ تر اٹھنا بیٹھنا آرٹسٹوں، لکھاریوں اور ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ رہا مگر روحی بانو کے ذکر پر ہمیشہ کسی نے ان کے متعلق اس سے زیادہ بات نہیں کی کہ “ہاں یار! بیمار ہے وہ کب سے، بڑی شاندار ایکٹرس ہوا کرتی تھی، سنا ہے فاؤنٹین ھاؤس میں ہوتی ہے۔ وہاں جا کر کبھی ملاقات کا اتفاق نہ ہوا”

“جی فاؤنٹین ہاؤس ہی میں ہوتی ہیں، گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہِ نفسیات کی جانب سے پچھلے ہفتے ایک اسائینمنٹ پر کام کرنے کی غرض سے میرا وہاں جانا ہوا تھا۔”

یہ دو ہزار دس کی بات ہے جب میں پہلی مرتبہ روحی بانو سے ذاتی طور پر ملی۔ شکدزو فرینیا کے مریضوں کوعموماً دماغی ہسپتالوں میں باقی مریضوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ فاؤنٹیں ہاؤس لاہور کے ایسے ہی ایک سیکشن میں کرسی پر بیٹھی ایک ناتواں سی عورت اپنے ہاتھ میں چھوٹا آئینہ تھامے خود سے گفتگو کر رہی تھی۔ اسکے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ سرخ رنگ کے ایک لمبے سے سویٹر میں ملبوس تھی، آنکھوں کے گِرد بہت گہرے ہلکےاور کاجل کی لکیریں پھیلی تھیں۔ ہونٹوں پہ تبسم اور ہاتھوں میں مسلسل جنبش تھی۔ وہ خود کو دلہن سمجھ کر کسی نوعروس کی طرح خواہشِ آرائش و زیبائش کا اظہار کر رہی تھی۔ میرے زرا قریب جانے ہر وہ پُرجوش انداز میں اٹھی اور مجھ سے اپنی خواہش کی تکمیل کرانا چاہی۔ سچ پوچھیں تو اس غیر متوقع اور اچانک ایکشن پر میں گھبرا کے پیچھے ہٹ گئی۔ یہ میرا نفسیات کے مضمون میں بی ایس سی آنرز کا دوسرا سال تھا۔ اس بات پر قریب کھڑی اٹنڈینٹ نے مجھے اور روحی بانو دونوں ہی کو ڈانٹ دیا۔

چند لمحوں کی اس ملاقات نے میرے ذہن کے پردے پہ بہت گہرے نقوش ثبت کیے۔ میں کئی دن تک ان کا چہرہ اپنی آنکھوں کے آگے سے ہٹا نہ سکی۔ نفسیات کی طالبِ علم ہونے کے باوجود کئی سوال مجھے کئی روز تک تنگ کرتے رہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے آخر، کوئی اپنے حواس کیسے کھو بیٹھتا ہے، کیا یہ واقعی حواس کا کھونا ہے یا انسان کسی دوسری دنیا میں جینے لگتا ہے جو ہماری دنیا کی نارمیلٹی کے سٹینڈرڈ پر پورا نہیں اترتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کے گورنمنٹ کالج کی انہی راہداریوں میں ٹہلتی اسی شعبہِ نفسیات کی ایک مایہ ناز اولڈ راوین اورپاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی بہترین اداکارہ کو اب اپنے اس شاندار ماضی کی کوئی سدھ بدھ نہیں۔ یہ کیسے ہو گیا کہ روحی بانو کو اب کوئی سکرین پر نہیں لیتا، انکے سارے آرٹسٹ دوست کدھر ہیں اور وغیرہ وغیرہ

میں نے اس کے بعد بھی مزید ایک دو بار فاؤنٹیں ہاؤس جا کر روحی بانو سے ملنا چاہا مگر زیرِ اعلاج ہونے کی وجہ سے ان سے ملاقات کی اجازت ہر ایک کو نہیں تھی۔ ان کے آرٹ اینڈ ڈرامہ تھریبسٹ ڈاکٹر عاصم امجد جو کہ بعد میں میرے بھی آرٹ اینڈ ڈرامہ تھریپی کے استادِ محترم بنے۔ ان سے میں نے اجازت لے کر روحی بانو کی بنائی ہوئی پینٹینگز اور تصاویر دیکھیں جو اپنے آپ میں ایک الگ کائنات تھیں۔

 سالوں بیت گئے روحی بانو میرے دماغ سے نہ نکلیں۔ دو ہزار بارہ، تیرہ میں میری ملاقات سرمد صہبائی صاحب سے ہوئی جن کا پی ٹی وی کے ساتھ ایک انمول تعلق رہا ہے۔ ان سے بانو کے بارے میں گفت و شنید میں مجھے مزید معلوم ہوا کہ ان کے والد محترم اللہ رکھا ایک مشہور طبلہ نواز تھے اور روحی جی اپنی زندگی میں دو ناکام شادیوں سے دو چار ہوئیں اور اس سب پہ قیامت یہ کہ انہوں نے اپنا لخت جگر ایک قاتلانہ حملے میں کھویا تھا۔ یہ سب جان کر مجھے مزید مایوسی و دکھ ہوا۔ میرے بس میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو میں روحی جی کے لیے کر سکتی۔

میں خود اسٹوڈنٹ تھی۔ نہ تو ابھی ماہرِ نفسیات ہوئی تھی کہ روحی جی کی معالجِ خاص بن سکتی نہ ہی فائنینشل طور پر اتنی مضبوط تھی کہ ان کی مالی مدد کر سکتی۔ لے دے کے میرے پاس روحی جی کو دینے کے لیے دعائیں، نیک تمنائیں اور مورل اسپورٹ تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ میں یہ کر سکتی تھی (جو وقتاً فوقتاً میں نے کیا بھی) کہ با اثر ادبی حلقوں میں روحی جی کا تذکرہ کِیا جائے اور انکے ذکر کو زندہ رکھا جائے، ان کے حالات زندگی کی خبر لی جائے اور کبھی جو اور کچھ نہیں تو ان کی تنہائی زائل کرنے کے لیے اسی کا ساتھی بنا جائے۔

اپریل 2015 تک میں کمانے لگ گئی تھی جب روحی جی پر ایک بزدلانہ حملے کی خبر سننے میں آئی۔ جو کسی بد بخت نے بھیڑ بھرے گلبرگ کے مضافات میں موجود ان کے گھر میں ان پر کِیا جب وہ وہاں تنہائی کے عالم میں تھیں۔ مجھ سمیت کئی لوگوں کے لیے یہ سانحہ کسی شاک سے کم نہ تھا۔ نیرنگ آرٹ گیلری میں انتظار حسین، زاہد ڈار، مسعود اشعر، اکرام اللہ، ایرج مبارک اور گلنار کے ساتھ ہفتہ وار نشست میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی اور سب نے بڑے رنج و ملال کا اظہار کیا۔ وہیں یہ بھی معلوم پڑا کہ روحی جی پر حملہ گرچہ جان لیوا ثابت نہ ہوا مگر سر میں چوٹ اور ایک کان زخمی ہونے کی وجہ سے انہیں ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ انہیں دیکھنے جانا چاہا مگر ایسا ممکن نہ ہوا۔

میری کمائی تو روحی جی کے کسی کام نہ آسکتی تھی کہ اول تو وہ تھی ہی بہت محدود۔ دوسرا مجھے علم نہ تھا کہ ایک سینیئر آرٹسٹ کی مالی طور پر کیسے مدد کی جا سکتی ہے۔ تیسرا میں خود کو اس عمل کے لیے بہت چھوٹا اور ادنیٰ خیال کرتی تھی۔ میں نے روحی جی پر کچھ لکھنا چاہا مگر اس زمانے میں مجھے لکھنے کی بھی تمیزنہیں تھی۔ (کچھ لوگوں کو شاید لگتا ہو وہ تو آج بھی نہیں ہے، سرِ تسلیم خم) بہرحال سال بیت گئے اور میں انکے لیے کچھ نہ کر پائی۔ آج سوشل میڈیا پر ان کے جانے کی خبر پر افسوس زدہ نپے تلے اظہاریے پڑھ کر مجھے ایک بار پھر اسی درد ناک کیفینت کا سامنا ہوا ہے جو 2010 میں روحی جی کو پہلی مرتبہ دیکھ کر ہوا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے، روحی جی کو کوئی اب سکرین پہ کیوں نہیں لیتا، ان کے آرٹسٹ دوست کدھر ہیں وغیرہ وغیرہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).