مجھے ڈاکٹر بننا ہے، زندگیاں بچانی ہیں


اریبہ سے جب کبھی کسی نے پوچھا کہ اس نے بڑے ہو کر کیا بننا ہے تو اس کا یہی جواب ہوتا تھا۔ وہ اس کم عمری میں بھی زندگی کے مقصد اور اہمیت سے واقف تھی۔ اسے خوشیاں بانٹنا آتا تھا، چاہے وہ اس کے چھوٹے بہن بھائی ہوں یا اسکول کی دوست، وہ سب کو پیار کرتی اور ان کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ ہمیشہ پہلی پوزیشن لینے پر اس کی امی تو اس کو ابھی سے ڈاکٹر کہتی تھی۔

اس دن وہ بہت خوش تھی جب ابو نے گھر بتایا کہ ہم گاؤں جا رہے ہیں وہاں شادی ہے، وہ اسکول میں سب دوستوں کو بتا رہی تھی۔ ٹیچرز سے چھٹی بھی لے لی تھی۔
”تم واپس کب آؤ گی“ جب اس سے اسکول کی ایک دوست نے پوچھا تو اس نے کہا ”بس شادی ختم ہوتے ہی ہم لوگ واپس آ جائیں گے“۔ اسکول سے گھر جاتے ہویے وہ اداس تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کے وہ اپنی تمام دوستوں کو ساتھ لے جائے، لیکن جلد واپس آنے کا کہ کر اس نے سب کو خدا حافظ کہا۔

گھر پر بہت گہما گہمی تھی امی ابو پیکنگ میں مصروف تھے، کل ہی امی ہمارے لئے نیے کپڑے لے آئی تھیں اور مجھے اپنا سرخ فراک بہت پسند آیا تھا، وہ تصور ہی تصور میں خود کو اس لباس میں دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔
”امی میں اپنا اسکول بیگ ساتھ لے لوں؟ مجھے اسکول کا ہوم ورک کرنا ہے اور ویسے بھی اگلے ماہ امتحان بھی تو ہیں“۔ صبح روانہ ہوتے وقت اس نے امی سے پوچھا، ”نہیں بیٹا بس کچھ دنوں کی تو بات ہے ہم واپس آ جائیں گے“

راستے میں چھوٹے بہن بھی لڑائی کرتے جا رہے تھے کہ کس نے گاڑی کی سیٹ پہ بیٹھنا اور کس نے گود میں، ننھی جازیبہ اپنا دودھ کا فیڈر ختم کرنے میں لگی ہوئی تھی اور ساتھ ساتھ بھائی کے بال بھی کھینچے جا رہی تھی جو کے اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ جب کہ اریبہ اپنی کیٹو کو یاد کر کے اداس ہو رہی تھے وہ بلی جو روزانہ شام کو نہ جانے کہاں سے ان کے گھر آ جاتی تھی اور وہ اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی، اب نہ جانے اس کو کھانے کو کچھ ملے گا بھی یا نہیں وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ گاڑی کو ایک دم جھٹکا سا لگا، کسی کے سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، ”شاید ٹائر پھٹ گیا ہے“، ”نہیں پیچھے سے ایک گاڑی نے ٹکر ماری ہے شاید“، اس سے پہلے کے ان کی سمجھ میں کچھ آتا کچھ لوگ گاڑی کے سامنے آ گئے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔

”ڈاکو ہیں شاید“ سامنے والی سیٹ سے آواز آئی، ”ڈاکو، ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں سوائے شادی کے کپڑوں کے، انہیں کیا چاہیے ہم سے“ اریبہ کا ننھا دماغ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ساتھ ہی گولیاں چلنے کی آواز آئی اور اسے یوں لگا جیسے کوئی گرم لوہے کی سلاخ اس کے جسم کہ آر پار ہو گئی ہو پھر ایک اور، ایک اور۔ اس کو لگا کہ جیسے اس کے جسم میں آگ سے لگ گئی ہے، اور اس کا جسم اس میں پگھل رہا ہے اور ایک گرم سیال مادہ بن کر بہ رہا ہو، وہ دیکھنا چاہ رہی تھی لیکن اس کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا ہونے لگا اور جسم تھا کے جیسے آہستہ آہستہ پگھل جائے گا، وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گرم بھیگتے جسم کو ٹٹولنا چاہتی ہے لیکن اس کے ہاتھ حرکت نہیں کر رہے اور آنکھیں بند ہونے لگی تھیں جیسے اس کو نیند آ رہی ہے اور وہ ابھی سو جائے گی اور اس کا سارا جسم پگھل جاتے گا، گاڑی میں خاموشی تھی اس کے چھوٹے بھائی اور بہنوں کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی ”کیا وہ بھی سو گئے ہیں“ کیا سب سو گئے ہیں، ”پولیس آئی تھی“ گاڑی کہ باہر کوئی کہ رہا تھا اس نے آخری آواز سنی اور اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).