تعلیم و تربیت اولاد


اولاد جو کہ انسان کا ٹکڑا یا گوشۂ جگر بھی کہلاتی ہے اس سے محبت ایک فطری امر ہے۔ چرند، پرند، حیوان، وحوش، بہائم یہاں تک کہ وحشی اورجنگلی درندے جن کی خوراک دوسرے جانوروں کا گوشت ہے لیکن اپنے بچوں سے وہ بھی محبت کرتے ہیں۔ مادہ بچھو کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ وہ اپنے نومولود بچوں کی خوراک بن جاتی ہے۔ اس طرح اپنے بچوں کی پہلی خوراک بن کرخود کو قربان کردیتی ہے اور ان بچوں کے جسم کاحصہ بن جاتی ہے۔ دیگر جانور بھی اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں گھوڑی کا اپنے بچوں کاخیال رکھنے کا بیان آیا ہے :

”اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور ان میں سے 99 حصے اپنے پاس رکھے ہیں۔ صرف ایک حصہ زمین پر اتارا اور اسی کی وجہ سے آپ دیکھتے ہیں مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔ گھوڑی بھی اپنے بچے کے اوپر سے اپنا پاؤں اس خوف سے اٹھا لیتی ہے کہ اسے تکلیف ہوگی“۔ (صحیح بخاری:کتاب الآداب)

یہی جذبہ اللہ رب العزت نے حضرت انسان کے دل میں بھی رکھا ہے۔ تمام والدین اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی بہتری و خیر خواہی چاہتے ہیں۔ ان کو کامیاب و کامران دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان پر کوئی آنچ آنا پسند نہیں کرتے۔ ہمیشہ اپنی اولاد کو ناز و نعم میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں بے لوث، مخلص اور بلاعوض محبت کرنے والی ذات والدین ہی کی ہے۔ جو اپنی تمام تر قوتیں توانیاں اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے اور بنانے پر صرف کر دیتے ہیں۔ خود بھوک، پیاس، مصیبتیں برداشت کر لیں گے لیکن اپنے بچوں کے لئے سایہ الفت و محبت بنے رہیں گے۔ الغرض اپنی جوانی کی کئی بہاریں لوٹا کر اولاد کو بہار شباب سے آشنا کرتے ہیں۔ بقول شاعر

روٹی اپنے حصے کی دے کے اپنے بچوں کو

صبر کی ردا اوڑھے بھوکی سو رہی ہے ماں (عارف شفیق)

اس حد تک قربانی و ایثار کرنے والے والدین ہی ہوسکتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے لئے حتی المقدور دنیاومافیہا کی نعمتیں مہیا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ان کے لئے راحت و آرام اوراسباب تعیش بہم پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں۔ دنیا کی آگ، موسم کی سختی، دھوپ کی تمازت، گرمی کی شدت سے بچانے کی فکررہتی ہے اور ان کے لئے زندگی کی ہر نعمت و سکون کے حصول کا انتظام کیاجاتاہے۔ یہ اسباب آرام وسکون، راحت وتعیش، عیش وعشرت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت پر بھی پوری توجہ دیں تاکہ ان کی اولادبہترین انسان اور مسلمان بن سکے اور اگر صحیح تعلیم وتربیت نہیں تو یہ تمام دنیاوی آسائشیں و آرام اور دنیاوی نعمتیں و لذتیں اس کمی کوپورا نہیں کرسکتیں۔

کیونکہ اولاد کو دنیاوی راحت وسکون دینے کے لئے تو جانور بھی اپنی تمام توانیاں صرف کردیتے ہیں اور اپنی اولاد کو سکون دیتے ہیں۔ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بہترین معاشرے کابہترین شہری اور صالح مسلمان بنائے اس کے لئے اچھی تعلیم و تربیت کا ہونا نہایت ضروری ہے اور یہی انسان کا مقصد اولین ہوناچاہیے صرف اولاد کا پیٹ پالنا اس کا مقصد حقیقی نہیں ہے یہ تومحض ایسا ہے کہ انسان بامرمجبوری کوئی کام کرے اور اسے اپنی زندگی کا مقصد قرار دے، یاکوئی انسان جو قیدخانہ میں ڈال دیا گیا ہو اسے اپنا گھر کہے، کیونکہ صحیح معانی میں گھر مکینوں سے بنتا ہے نہ کہ مکان یا در ودیوار سے۔ اپنے گھر کو پیار، محبت، صلہ رحمی، عزت، مروت، ہمدردی، ملنساری، عزت، خوداعتمادی اور توجہ کے زیورات سے سجاکر جنت نظیر بنائیں کیونکہ صرف درودیوارسے بنایا، سجایا، آراستہ وپیراستہ کیا ہوا گھر زنداں وقیدخانہ سے کسی بھی طور مختلف نہ ہوگا۔

جہاں تک کردار سازی اور تربیت کے لئے عملی اقدامات کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں نفسیات دانوں کی مختلف بلکہ کسی حد تک متضاد آراء ہیں اورتمام پر عمل بیک وقت ناممکن ہے۔ اگر ہم ماضی کے والدین کی طرح سختی اور شدت کا رویہ اپنائیں تو اس ترقی پسند دور میں بچے اس کو مسترد کر دیں گے۔ اور پھر یہ چیز بھی یقینی نہیں کہ اس سختی اور شدید مارپیٹ کا کچھ فائدہ بھی ہو گا۔

میرے نزدیک تمام امور میں سب سے اہم نکتہ بچوں کے لئے وقت نکالنا ہے۔ ان کے ساتھ مناسب وقت گزاریں۔ کوئی بھی کتنا ہی پڑھا لکھا ہو وہ آپ کے بچوں کو باپ کی محبت اور ماں کی ممتا فراہم نہیں کرسکتا۔ جو محبت، شفقت، انسیت، خلوص اورپیار آپ فراہم کرسکتے ہیں وہ دنیا کی تمام دولت لٹاکر بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہاں اس کے برعکس آج کل والدین بھی دیگر مشاغل میں اتنے زیادہ مصروف ہیں کہ بچوں کے لئے ان کے پاس وقت نہیں۔ بچے ماں اورباپ کی محبت کو ترس جاتے ہیں۔ ان کے لمس تک سے محروم ہیں۔ بالخصوص جن بچوں کے والدجاب کی خاطر دوسرے ملک سدھار چکے ہیں اورپانچ پانچ سال بچوں کوروبرو شکل دیکھنے کا موقع میسرنہ آتاہو!

اب حال یہ ہے کہ تربیت کی بجائے والدین اپنے بچوں کو آسائشیں دینا چاہتے ہیں۔ اورسمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنوں بچوں کو اچھا گھر، اچھا ماحول، اچھا اسکول اور دیگر سہولتیں فراہم کر دیں تو انہوں نے ان کی صحیح تعلیم و تربیت کا حق ادا کر دیا۔

والدین کی طرف سے آسائشیں مہیا کرنا کوئی مذموم نہیں بلکہ بہت ہی قابل تعریف ہے لیکن صرف یہ چیزیں اچھی زندگی گزارنے کی ضمانت نہیں ہیں۔ مثلاً اگر والدین بچے کو اس سوچ کے تحت اعلیٰ اسکول میں داخل کرائیں کہ یہ طبقہ اشرافیہ میں بیٹھے گا، ان کے ادب وآداب سیکھے گا اگر گھر کا ماحول اور مالی حیثیت ان سے مطابقت نہ رکھتی ہو اور وہ اس کے اخراجات برداشت نہ کر سکتے ہوں تو اس سے بچے میں احساس محرومی بڑھے گا۔

مزید برآں والدین کی سرپرستی اور قلبی، ذہنی اور جسمانی تعلق نہ ہونے کے باعث ہمارے گھروں میں جو خلا پیدا ہو چکا ہے اسے میڈیا نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور آج تو ہمیں خود علم نہیں کہ اب گھروں میں ضابطہ اخلاق کون بنا رہا ہے، ہم یا پھرالیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اورسوشل میڈیا, اس سے بھی ہم بے خبر ہیں۔

اس فیصلہ کو کوئی بھی دانشمند، اہل بصیرت، دانا، بینا اورجہاندیدہ شخص حکمت ودانائی کا فیصلہ نہیں قرار دے گا۔ اس لئے بہتر اورمناسب یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے جیسوں میں میل ملاپ رکھنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمام تگ و دومحنت اورکوشش کے باوجود یہ اپنے تئیں دانشمندانہ فیصلہ تصورکرنے کی وجہ سے اس مثل کے مصداق نہ ہوجائے کہ ”کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا“ اور ایک وقت ایسا آجائے جب اس کے لبوں پر بے ساختہ یہ شعر جاری ہوجائے۔ بقول احمد امتیاز

کوئی عادت مرے بچوں میں نہیں مری

میرے اندر ہی دھری رہ گئی دانائی مری

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2