شاہی پورٹیبل اینٹرٹینمنٹ سسٹم اور ہاتھی پر ڈبل سواری کا راز


کیا یہ سائنسی ترقی نہیں کہ چار پانچ سو سال پرانے زمانے میں بھی ہمارے امرا پورٹیبل اینٹرٹینمنٹ سسٹم ایجاد کر چکے تھے۔ انگریزوں نے تو پچھلے بیس سال میں اپنے جہازوں میں مسافروں کے لئے یہ سسٹم لگایا ہے۔ نیچے دی گئی مغل دور کی تصویر ملاحظہ کریں۔ سجا سجایا شاہی ہاتھی ہے۔ اس پر آگے مہاوت بیٹھا اسے ڈرائیو کر رہا ہے۔ پیچھے بادشاہ سلامت اور ایک تیسرا آدمی بیٹھا ہے۔ ہاتھی کے دانتوں پر ایک مچان فٹ کی گئی ہے جس پر ایک رقاصہ کھڑی ”زندہ ناچ“ کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اسے ہاتھی، مہاوت، شہنشاہ اور تیسرا سوار دیکھ رہے ہیں۔ اس تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفر کے دوران دل بہلانے کا یہ اینٹرٹینمنٹ سسٹم ہم چار پانچ صدیاں پہلے بھی استعمال کر رہے تھے اور انگریزوں نے باقی تمام ایجادات کی طرح یہ آئیڈیا بھی ہم سے چرایا ہے۔

آپ اس بات پر حیران ہو رہے ہوں گے کہ ہاتھی پر ڈبل سواری کیوں کی جا رہی ہے۔ شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں پروٹوکول والوں نے نشاندہی کی کہ شہنشاہ کے آگے ایک کم ذات کا مہاوت پشت کر کے بیٹھتا ہے۔ اس سے بادشاہ سلامت کی نہایت بے عزتی ہوتی ہے کیونکہ دربار میں تو بڑے بڑے امرا کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ بادشاہ کی طرف پشت کریں۔ ہمیشہ الٹے قدموں چل کر ہی وہ بادشاہ کے سامنے سے ہٹا کرتے تھے۔

اس اہم مسئلے پر غور کرنے کے لیے ایک جے آئی ٹی بنائی گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ بادشاہ گھوڑا تو خود ڈرائیو کر سکتا تھا مگر ہاتھی ڈرائیو کرنے کے لئے ایک پروفیشنل شوفر لازم تھا۔ یعنی اسے ہٹانا ناممکن تھا۔

اب اس کی پشت اگر بادشاہ کے سامنے سے ہٹانے کے لئے اگر اس کا منہ بادشاہ کی طرف کر دیا جاتا تو ہاتھی آگے جا رہا ہوتا اور ڈرائیور پیچھے دیکھ رہا ہوتا۔ ایکسیڈنٹ ہو سکتا تھا۔ اگر ہاتھی کسی دیوار میں ٹکر مار دیتا یا کسی عام شخص کو پیر تلے کچل دیتا تو خیر تھی مگر وہ کسی بدرو میں اتر جاتا تو قیامت ہی ہوتی۔ اس زمانے میں صابن شیمپو تو ہوتے نہیں تھے، بادشاہ سلامت کے بدن سے کئی دن بدرو کے چوڑے کہ لپٹیں اٹھتی رہتیں۔

دوسری صورت یہ تھی کہ بادشاہ سلامت اپنا رخ پلٹ لیتے۔ یعنی مہاوت آگے دیکھ رہا ہے تو وہ اس کی طرف پشت کر کے بیٹھ جاتے۔ اس میں یہ قباحت تھی کہ اب بادشاہ سلامت کے رخ روشن کے سامنے سے کم ذات انسان کی پشت تو ہٹ جاتی لیکن ہاتھی کی پشت ان کے سامنے ہوتی۔

ہم نے ہاتھی پر چند سو فٹ سے زیادہ سفر نہیں کیا اس لئے کہہ نہیں سکتے کہ وہ چلتے ہوئے گھوڑے گدھے کی طرح دم لہرا لہرا کر کمر کھجاتا یا مکھیاں اڑاتا ہے یا نہیں۔ گمان ہے کہ ایسا کرتا ہو گا اور یہ دم اندازے کی غلطی کے سبب بادشاہ سلامت کے روئے روشن کو بھی لگ سکتی ہو گی جس سے ظاہر ہے کہ توہینِ شاہ ہو جاتی۔

یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ مقامی رواج کے مطابق چوروں اچکوں کو اس طرح جانور کی پشت پر الٹے منہ بٹھایا کرتے تھے۔ اس لئے شہنشاہ ہند کے بارے میں رعایا بدگمانی کر سکتی تھی کہ وہ کچھ الٹا سیدھا کرتے پکڑے گئے ہیں اور اب ان کا جلوس نکالا جا رہا ہے۔

ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے شاہی جے آئی ٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ شہنشاہ اور مہاوت کی پشت کے درمیان ایک سید بٹھا دیا جائے۔ شہنشاہ سید کی پشت دیکھیں گے، سید مہاوت کی اور مہاوت ہاتھی کی۔ یوں کسی کی شان میں گستاخی نہیں ہو گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar