سانحہ ساہیوال: پولیس دہشت گردی


پولیس دہشت گردی پاکستانی نام نہاد مُہذب معاشرے میں نئی بات نہیں ہے۔ محکمہ پولیس میں اب تک ایسے افراد ہیں جن کے گھناؤنے اعمال کے سبب پولیس سے وابستہ اچھے سپاہیوں و افسران کی قربانیاں اورنیک کارنامے بھی بدنامی کی گہری سیاہ دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ کراچی میں چوہدری اسلم، ذیشان کاظمی، بہادر علی، سرور کمانڈو اور راؤ انواروغیرہ کے ہاتھوں 1992 ء کے ریاستی آپریشن میں ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنان و دیگر کا ماورائے عدالت قَتال اور سینکڑوں افراد کو لاپتہ کر دینا پاکستانی تاریخ میں پولیس دہشت گردی کی سیاہ ترین مثال ہے۔

میر مرتضی بھٹو اور نقیب اللہ محسود ماورائے عدالت قتل کیس بھی پولیس افسر راؤ انوار و چند دیگر پولیس والوں کے سیاہ کارنامے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان، پنجاب اورخیبر پختونخواہ میں بھی پولیس کے چند افرادکے ماورائے قانون قَتال و دیگر مظالم کی داستانیں میڈیاپر دیکھ اور پڑھ کریہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ انسان کو دو پاؤں والا جانور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ طاقت کے زُعم میں اپنے مفادات حاصل کرنے کی ہوس اسے انسان سے حیوان اور حیوان سے شیطان بنا دیتی ہے۔ سانحہ ساہیوال میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں نے جس سفاکی سے خلیل، اس کی زوجہ نبیلہ، تیرہ سالہ بیٹی اریبہ اور ڈرائیور ذیشان کو پولیس گردی کا نشانہ بنا کر شہید کیا اُس پر ہر درد مند دل انسان افسردہ اور غصے کی کیفیت میں مبتلا ہے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق انٹیلی جنس اطلاع پر خطرناک دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ جب گاڑی پولیس کی نظروں میں تھی تو ناکہ بندی کر کے اس کو کہیں بھی روکا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا، اتنی بڑی کارروائی کی فوٹیج کیوں نہیں بنائی گئی تاکہ اگر کوئی الزام لگائے تو اس کو غلط ثابت کیا جاسکے، تجزیہ کاروں کے مطابق محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے پاس ثبوت نہ ہونے کے باوجود کسی بھی شخص کو دہشت گردی کے شبے میں بغیر وارنٹ گرفتار کر لینے کا غیر معمولی اختیار بھی موجود ہے اور کسی مشتبہ شخص کو گرفتار کرنا ہوتو پہلے اُسے وارننگ، دوسرے مرحلے میں ہوائی فائرنگ اور سنگین صورتحال ہو تو ٹانگ پر گولی مار کر بھاگنے سے روک کر گرفتار کیا جاسکتا ہے تو جب ذیشان کی گاڑی رک گئی تھی، شیشے بھی کالے نہیں تھے، کوئی مزاحمت بھی نہیں ہوئی تو بغیر کوئی آپشن استعمال کیے اندھا دھند فائرنگ کر کے گاڑی میں سوار بے گناہ افراد کو شہید کیوں کیا گیا اور اس اندھا دھند فائرنگ میں وہ بارودی مواد، ہینڈ گرنیڈزاور خود کش جیکٹس کیوں نہ پھٹیں جس کی برآمدگی کا دعوی کیاگیا۔

کارروائی کرنے والے سی ٹی ڈی اہلکاروں اور ان کو ہدایت دینے والوں کا یہ عمل کھلی شیطانی کارروائی ہے جو ناقابلِ معافی جرم ہے۔ پولیس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ذیشان کا تعلق داعش سے تھا تو جناب تھوڑے عرصے قبل مقتدر اداروں کے سربراہوں کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ”داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے“ لہذا سی ٹی ڈی کا یہ موقف بھی جھوٹ ثابت ہوتا ہے نیز یہ کہ ذیشان کا بھائی احتشام پچھلے دو سال سے پولیس کی ڈولفن فورس میں شامل ہے تو کیا سی ٹی ڈی کو ذیشان کے بارے میں پہلے سے علم نہ تھا۔ درست ہے ”جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے“۔

جھوٹ پر جھوٹ بولنے کے بعد پولیس کی بے حسی اور بدنیتی کی انتہا دیکھیے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے پہلے ایک ایف آئی آر درج کی جس میں مقتول مردوں اور خواتین کو داعش کے خطرناک دہشت گرد قرار دیا اور میڈیا کے ذریعے جھوٹ ثابت ہونے اور لواحقین کے دھرنا دینے پر پینترا بدل کر سی ٹی ڈی کے چھ ”نامعلوم پولیس اہلکاروں“ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا (یاد رہے پہلے صرف ”نامعلوم دہشت گرد“ ہوتے تھے اب ”نامعلوم پولیس اہلکار“ بھی ہوتے ہیں ) یہ عمل سپریم کورٹ کی توہینِ کے زمرے میں بھی آتا ہے جس کے تحت ایک واقعے کی پہلی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اسی واقعے کی کسی بھی قسم کی دوسری ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی ہے، اسی طرح سی ٹی ڈی پولیس نے واقعے کے بعد جائے وقوعہ کو کھلا چھوڑ دیا اور تجزیہ کے لئے فارنزک لیبارٹری میں کارروائی میں استعمال ہونے والی ایس ایم جی بندوقیں اور گولیوں کے سکے بھی نہیں بھجوائے تاکہ ثبوت نہ مل سکیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ عدالت ثبوت و شواہد دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں بچ جانے والے طالب علموں کے ذہنوں میں خوف کے ساتھ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف نفرت پنپی ہوگی۔ ان کے خوف کو نفسیاتی ودیگر طریقہ کار سے دور کر کے انہیں کارآمد شہری بنایا جاسکتا ہے جب کہ سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانے والے معصوم بچے عمیر، ہادیہ اور منیبہ جب بھی ٹی وی، اخبار، کمپیوٹر، موبائل اور مختلف جگہوں پر پولیس کو دیکھیں گے تو ان کے ذہنوں میں موجود پولیس کے لئے خوف و نفرت ختم ہونے کے بجائے باقی رہے گی جس کی وجہ سے ان معصوم بچوں کی زندگیوں پر نہایت خراب اثرات ثبت ہوتے رہیں گے اوراس کے ذمہ دار بھی کارروائی کرنے والے تمام سی ٹی ڈی اہلکار اور ان کو ہدایت دینے والے افراد ٹہرتے ہیں۔ غیر جانبدارانہ غور و فکر کیا جائے تو پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل ہوں، لاپتہ کردیا جانا ہو یا دیگر سنگین مظالم اُس دہشت گردی سے بڑی دہشت گردی ہیں جو دہشت گرد کرتے ہیں۔

لواحقین اور عوامی غم وغصے کے پیشِ نظر سی ٹی ڈی کے دس باوردی اور چھ سادہ لباس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے مگر تاحال صورت یہ ہے کہ حکومتی وزراء، پولیس اور تحقیقاتی ادارے مختلف اوقات میں بجائے حقائق بیان کرنے کے مختلف بیانات دے کر عوام کو شش وپنج میں مبتلا کرر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قریباً چھ ماہ میں عمران خان کے ”نیا پاکستان“ کے دعوے پانی پر تحریر ثابت ہوئے ہیں کیوں کہ معیشت کی صورتحال پہلے سے ابتر ہوگئی ہے، افراطِ زر بڑھ گیا ہے، بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے، عوام پریشان اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں اور سانحہ ساہیوال نے ان کی پریشانیوں اور ہیجان میں مزید اضافہ کردیا ہے لہذا عمران خان اور ان کی حکومتی ٹیم کے لئے اس سانحے کے ملزموں کو جلد کیفرِ کردار پہنچاکر مثال بنانا اور ملک بھر میں پولیس کے فرسودہ نظام میں عملاً اصلاحات کرنا انتہائی اہم اور بہت مشکل معاملہ ہے۔ عوام انتظار کر رہے ہیں کہ ریاستِ مدینہ کا راگ الاپنے والے وزیرِ اعظم عمران خان اس معاملے کو فوری حل کرتے ہیں یا یو ٹرن لے کر چھوڑدیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).