اسلام علیکم۔ بھٹو صاحب کیسے مزاج ہیں؟


مکرمی! میرا کامل یقین ہے کہ آپ کل بھی زندہ تھے اور آج بھی زند ہ ہیں۔ اسی یقین کے تحت آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ سندھ کا بچہ بچہ آپ کی محبت کا مقروض ہے ہم آج بھی اپنی ترقی اور بحالی کا خواب دیکھتے ہیں مگر کیا ہمارے خواب صرف خواب رہیں گے۔

بھٹو صاحب! میں اس وقت اپنے کمرے میں چارپائی پرلیٹا ہوں، ساتھ چھوٹا بھائی سویا ہے، وہ مجھ سے چار سال چھوٹا ہے، سوچ رہا ہوں سال دو بعد اس کی بھی شادی ہوجائے گی پھر میں اس کمرے سے بھی باہر ہوجاؤنگا؟ اکیلا ساتھ والے کمرے میں یا ٹی وی لاؤنج میں کیسے سوؤنگا؟ آدھی رات کو پانی مانگنے پر کون دیگا؟ کیا یہ بیوی چھوڑ کر آئے گا ؟

خیر ایک گھنٹہ پہلے چھوٹی بہن جب میرے لئے چائے بنا کر لارہی تھی تو میں سوچنے لگا سال دو بعد یہ بھی اپنے گھر کی ہوجائے گی، پھر میرا یہ کام بھی رہ جائے گا؟ اور آپ کو پتا ہے آج میں یہ سب آپ سے کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیونکہ آج جب میرے پینسٹھ سالہ والد صاحب مجھے نہلا رہے تھے تو جھکتے ہوئے ان کی کمر میں بل پڑگیا اور نہانا بیچ میں رہ گیا، اب اللہ ان کا درد کم کرے، بس یہی وہ وقت تھا جب میں نے ٹوٹے دل کے ساتھ بہت تڑپ کردعا کی کہ اے میرے رب بس ایک ماں رہ گئی ہے ان سے پہلے مجھے موت دے دینا۔ ان کو نہیں۔ آمین۔

اس تمام اذیت میں ایک واحد حل جو مجھے نظرآتا ہے وہ یہ کہ کوئی ایک انسان ایسا ہوتا جو مجھے ہمیشہ کے لئے تھام لیتا سنبھال لیتا، اور ہم خصوصی افراد کو عمر بھر کو قبول کرنا کجا کوئی تھوکے بھی نا سو ایک ایسا ملازم رکھ لیا جائے جو چوبیس گھنٹے میری دیکھ بھال کرے، مگر سائیں اس کے لیے چاہیے پیسہ اور مستقل پیسہ۔ میں چوری ڈکیتی کرسکتا تو وہ کرکے پیسہ اکٹھا کرلیتا لیکن قسمت دیکھئے میرے ماں باپ نے مجھے پڑھایا لکھایا، سیاسیات میں ماسٹرز ڈگری دلوائی اور یہ بھی باور کروادیا کہ بھیک مانگنا گناہ ہے۔

اب ستم دیکھئے کہ میرا تو تعلق بھی آپ کے آبائی گوٹھ گڑھی خدا بخش بھٹو لاڑکانہ سے اور رہائش بی بی شہید کی جائے پیدائش کراچی میں ہے۔ سو سائیں مراد علی شاہ صاحب سے کہیے نا کہ وہ مجھے میری تعلیمی قابلیت کے مطابق کوئی ملازمت دلوادیں جس کی تنخواہ سے میں تنخواہ پر ایک ملازم رکھ لوں۔ اور کوئی چاہت نہیں۔
وسلام۔


وعلیکم السلام ینگ مین!
مجھے تمہارا خط ملا، تم نے اپنے خط میں مجھ سے جو کچھ بھی کہا میں نے پڑھا۔ ہاں میں نے ہی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا، اور آج چالیس سال بعد بھی میرے جیالے اس نعرے کو بیچ کر ووٹ بٹور رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے، انہیں کہنے دو، اُن کی باتوں پے کان مت دھرو۔ میں تو کب کا مارا جا چکا ہوں، اگر میں زندہ ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی میرا قتل کردیا گیا۔

میں کہتا ہوں بلاول سے کہ وہ میری دھرتی کے ہر عام و خاص کے لیے زندگی کو آسان بنائے۔ میں کہتا رہتا ہوں اپنے فالورز سے، مُراد سے اور سندھ کے لیڈرز سے کہ میرے نعرے کا یوں مذاق نہ اُڑائیں۔ میں نے یہ نعرہ محنت کے دم پر آگے بڑھنے والوں کے لئے لگایا تھا۔ تم لوگ خود بھی میرے اس نعرے کے ذریعے ووٹ کی بھیک لے رہے ہو اور میرے غیرت مند عوام کو بھی میرے خون کا قرض ادا ہونے تک بھکاری بنا رہے ہو؟ میں نے یہ نعرہ ہزار روپے فی خاندان کی ماہانہ بھیک کے لئے نہیں لگایا تھا، میرا نعرہ یہ تھا جو کہ شخص محنت کرے گا اس کو ریاست باعزت طریقے سے وہ سب کچھ دے گی جو اس کا حق ہے۔

میں اس وقت ریاست کا حکمران نہیں ہوں، میں جاچکا ہوں لیکن میں اپنے افکار چھوڑ کرگیا ہوں۔ میں اپنا نعرہ چھوڑ کرگیا ہوں۔ اس نعرے کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ ایک دن یہ نعرہ ختم ہوجائے گا۔ میں کہاں سے لاؤں وہ لوگ جو اس نعرے کی لاج رکھ لیں؟ اور میرے بچے میں تمہاری ماں سے شرمندہ ہوں! جنہوں نے خود ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کی وجہ سے تمہیں بھی تعلیم کی دولت سے آراستہ کیا اور تمہیں اتنی سمجھ اور شعور دیا۔ لیکن وہ بھول گئیں کہ آگہی موت ہوتی ہے۔

جتنی شرمندگی اور تکلیف مجھے تمہارا خط پڑھ کر ہوئی اس کا عشر عشیر بھی میری دھرتی کے کرتا دھرتا میرے نام پر سیاست کرنے والے، وہ میرا لہو بیچ کر اقتدار میں آ کر طاقتور ہوئے ہیں لیکن ہر طاقتور کی طرح انہیں کمزور کو کمزور تر رکھنا ہے تم ان کے لیے صرف ایک ووٹ ہو تمہیں اب تک یہ علم نہیں ہو ا کہ تمہیں یہ انسان نہیں سمجھتے میرے دیس کا المیہ ہے کہ ہمیں صرف مظلوم کے ساتھ ہمدردی جتانا آتی ہے عملی طور پر یہ صفر ہیں دکھ ہے کہ بلاول ہاؤس کی دیواریں بہریں ہو چکی ہیں میری تم سے التجا ہے کم از کم تم یہ نہ کہنا کہ بھٹو زندہ ہے تمہارا خط پڑھنے کے بعد بھٹو کو موت آگئی۔
والسلام! تمہارا مقتول قائد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).