کیا بنک ملازمین، سودخور شمار ہونگے ؟


بنک کے کسٹمرز کو بھی جو ”سود“ ملتا ہے، وہ بھی سیٹھ یا مافیا نہیں ہوتے بلکہ عوام ہی ہوتے ہیں اور دوسرے یہ ایک ڈکلئرڈ پیسہ ہوتا اور متمدن ریاست اس پہ بھی ٹیکس کٹوتی کیا کرتی ہے۔ (یہ صورتحال بھی، دورنبوی والی نہیں ) ۔

مختصر یہ کہ سرکاری بنک کے سسٹم میں نہ توایک سیٹھ ہوتا ہے، نہ کوئی امیر طبقہ بنتا ہے اور نہ ہی دولت کی گردش، ایک خاص طبقہ میں جاکر رک جاتی ہے۔ (جیسا کہ دور نبوی میں ہوتا تھا ) ۔

اب ذرا نجی بنکاری کا کیس بھی دیکھ لیجیے جس کا مالک ایک سیٹھ ( یا ایک گروپ) ہوتا ہے۔

بظاہر یہ وہی ”مکہ کے سیٹھ“ والا کیس لگتا ہے کیونکہ یہاں بھی سارا منافع سیٹھ کو ہی جاتا ہے مگرواضح ہو کہ مکہ والے سیٹھ پر سوسائٹی کو ریٹرن کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوا کرتی تھی۔ جبکہ موجودہ سیٹھ (یا گروپ) کو مارکیٹ میں مسابقت کا بھی سامنا ہے اور اپنی آمدن پر، ریاست کو انکم ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ جتنی زیادہ آمدن ہوگی، اتنا ہی زیادہ، اپنے حصے کا انکم ٹیکس سوسائٹی کی فلاح کے لئے واپس کرے گا۔ (چنانچہ یہ بھی مکہ والے سودخوروں سے الگ نوعیت کا کیس ہے جو الگ سٹڈی مانگتا ہے ) ۔

خاکسار کی رائے یہ ہے کہ چونکہ موجودہ بنک سسٹم کا اصل ٹارگٹ، عالمی پراجکیٹس میں سرمایہ کاری کرنا ہے جس کی بنا پر عوام میں روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں لہذا یہ اپنی اصل میں وہ سودی نظام نہیں ہے جس کے بارے میں قرآنی وعید آئی ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں ذیلی طور پر کوئی ایسا شعبہ بھی موجود ہو جس میں روایتی سود کی شکل پائی جاتی ہو تو ”ذیلی وجہ“ ہونے کی بنا پر بھی ملازمین کے رزق حلال پہ اثر نہیں پڑتا۔ آج کل بڑے شاپنگ مالز میں تجارت بڑھانے کے لئے لاٹری کا سسٹم استعمال کیا جاتا ہے جو تقریباً جوئے کی شکل ہے ( اور جوا بھی سود کی طرح ہی حرام ہے ) ۔ اس ذیلی لاٹری سسٹم کی وجہ سے، شاپنگ مال کی ملازمت حرام نہیں ہو جاتی۔ لہذا، بنک ملازمین کوبھی کسی احساس گناہ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

ظاہر ہے کہ خاکسار کی رائے فتوی کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر کوئی مولوی صاحب مصر ہیں کہ موجودہ معاشی نظام وہی پرانا سودی نظام ہے تو فقط یہ کہہ دینے سے اس کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی۔ کیونکہ ”عالم دین“ کہتے ہی اس آدمی کو ہیں جو نہ صرف اپنے زمانے کے مسائل کو سمجھتا ہو بلکہ ان کا حل یا متبادل پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

پاکستان کی خوشقسمتی ہے کہ یہاں مفتی تقی عثمانی جیسے علماء موجود ہیں جنہوں نے جدید معاشیات میں نہ صرف ڈگری لی ہوئی ہے بلکہ موجودہ معاشی ایشوز پر اسلامی نکتہ نظر سے تصنیف وتالیف بھی کی ہے اور میزان بنک کی صورت میں ایک متبادل اسلامی معاشی سسٹم بھی پیش کیا ہے۔

حیرت کی بات یہ کہ مفتی تقی عثمانی پرانکے ہی ہم مسلک چند ٹھیٹھ مولوی صاحبان معترض ہیں۔ ( ایسے ملاؤں نے خود ایک ہی معاشی کارنامہ انجام دیا ہے کہ مضاربہ کے نام پر معصوم عوام کے اربوں روپے لوٹ لے گئے ہیں ) ۔
میزان بنک کے ریفرنس سے مفتی صاحب پہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ”حیلے بہانے“ سے سودی نظام کوہی اسلامی نظام کا نام دے رکھا ہے۔

چلیں یہی فرض کرلیں کہ عثمانی صاحب نے عالمی معاشی نظام کے متبادل صرف ایک حیلہ اپنایا ہے تو کیا حیلہ بنانا شرعاً گناہ ہے؟ ۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ کسی عوامی مسئلہ کے حل کی خاطر حیلہ جوئی کرنا، عیب نہیں بلکہ مستحسن کاوش ہوتی ہے کہ اسی کو فقہ کہتے ہیں۔ ( خود قرآن نے ایوبؑ کو حیلہ بتایا کہ 100 لکڑی مارنے کی قسم، ایک ایسی جھاڑو کی ایک ضرب سے پوری کر لو، جس میں لکڑی سے بنے 100 ریشے ہوں ) ۔

البتہ، اچھی حیلہ سازی کی طرح، بری حیلہ سازی بھی ہوا کرتی ہے۔

کسی زمانے میں ہمارے علاقے کے سود خور مشہور ہوا کرتے تھے۔ مثلاً کسی مجبور کو ایک لاکھ روپے قرض درکار ہے تو اس شرط پہ ملے گا کہ سال بعد، 25 ہزار سود بھی ساتھ دینا پڑے گا۔

جب یہ لوگ تبلیغ میں لگ گئے تو مولوی صاحبان نے ان کو کاروبار حلال کرنے کا حیلہ سمجھایا۔ اب ایک موصوف نے ”علماء“ کے مشورہ سے ایک موٹر سائیکل شوروم کھول لیا ہے جس میں موٹر سائکل کی قیمت، نقد میں ایک لاکھ اور سال کی قسط ( یا لیز) پہ 1 لاکھ 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ جس مجبور کو قرض درکار ہے وہ شوروم پر آتا ہے۔ ایک موٹر سائیکل پر ہاتھ رکھتا ہے کہ یہ میں نے قسطوں پر خرید لی ہے اور سال بعد اس کی قیمت مبلغ سوا لاکھ روپے ادا کردوں گا۔ اب شوروم کا مالک، اس کو ایک لاکھ روپے دیکر، واپس وہی موٹر سائکل اس ”نئے مالک“ سے نقد پرخرید لیتا ہے۔ یعنی موٹرسائکل بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتی، قرض خواہ کو نقد ایک لاکھ بھی مل جاتا ہے، اسے سال بعد 25 ہزار زیادہ واپس بھی کرنا ہے مگر سود کا ”گناہ“ بھی نہیں ہوتا ( رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی ) ۔

بہرحال، مفتی عثمانی صاحب سے ذاتی عقید ت باوجود، خاکسار کا موقف ہے کہ اجتماعی مسائل بارے ( چاہے سماجی ہوں یا معاشی ) ، کسی فراد واحد کوفیصلے کا حق نہیں دینا چاہیے۔ اجتماعی امور بارے، صرف اسلامی نظریاتی کونسل کو ہی دینی موقف دینا چاہیے۔

دیکھئے، دنیا کا معاشی و سماجی و سیاسی نظام بہت پیچیدہ ہوچکا ہے۔ اب ایسے موضوعات پرصرف کتابی موقف نہیں چل سکتا بلکہ گراونڈ ریالٹی کو بھی دیکھنا پڑتا ہے جو دین اسلام کا خاصہ ہے اور اسی کو تفقہ فی الدین کہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے، عرب میں رائج طاقتور سودی معیشت پراس وقت ضرب لگائی تھی جب مملکتِ اسلامی، اس سودخور مافیا سے زیادہ طاقتور ہو چکی تھی۔ ( اس سے اسلام کی معاملہ فہمی واضح ہوتی ہے ) ۔

سود کے مسئلہ پر ہمہ وقت حکومت کو ”تڑیاں“ لگانے والے اور عوام کو ٹنشن میں رکھنے والے جملہ مشتعل مومنین کرام سے ہم یہ گذارش کرتے ہیں کہ اپنی توانائیاں، قوم کی معاشی ترقی کے لئے استعمال کیجئے۔ جب آپ کو یہ قوت حاصل ہوجائے گی تو دنیا، بغیرکہے بھی آپ کو فالو کیا کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2