نوکری ۔۔ یہ کبھی سوچا نہ تھا


\"husnain

اف میں تو تنگ آ گئی ایسی نوکری سے، یار یہ بھی کوئی نوکری ہے، سارا دن برباد کرو اور حاصل کیا ہوتا ہے، وہی سیٹھ کی ڈانٹ پھٹکار۔
ہم نے تو ساری جوانی نذر کر دی اس دفتر کو، کیا مل گیا ہمیں۔ بھئی ہم تو بس اگلے سال استعفیٰ منہ پر ماریں گے، لاحول ولا قوۃ، کیا نامعقول لوگ بیٹھے ہیں یہاں۔
میں کہتی ہوں، یہ چند روپلی جو ہمیں مہینے کے شروع میں تھما دیتے ہیں، ارے ہوتا کیا ہے اس میں۔
دوست، بالکل تھینک لیس جاب ہے ہماری تو، سارا دن گھستے رہو اور کریڈٹ کوئی اور لے جائے، نہ مالک خوش نہ گاہک خوش۔
جتنا کام ہم اس ادارے کے لیے کرتے ہیں اگر کہیں اور کرتے تو سر آنکھوں پر بٹھاتے لوگ، بھئی اپنا ہی کام شروع کر لیتے ہم تو۔
ایسی گفت و شنید آئے دن ہم آپ سنتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یار اکیلے ہم ہی مظلوم نہیں، یہ سب لوگ بھی ہمارے ساتھ اسی شمار و قطار میں ہیں۔ ایسی ایسی دکھ بھری داستانیں سننے میں آتی ہیں کہ بندہ سوچتا ہے بھئی یہ نوکری کر ہی کیوں رہے ہیں، اتنے قابل آدمی کو تو کب کا اپنا کاروبار کر لینا چاہیے تھا۔ خدا جانے کیا مجبوری آڑے آ گئی بے چارے کے، اب تک ارب پتی ہوتا۔ یہ رویہ ہمیں ہر سطح پر دیکھنے میں نظر آتا ہے، کام سے خوش نہ ہونا، دل لگا کر کام نہ کرنا، ضروری دفتری امور کو ٹالتے جانا، یہاں تک کہ ایک انبار اکٹھا ہو جائے کاموں کا، اور پھر کام کے بوجھ تلے دبتے چلے جانے کی شکایت کرنا۔ یہ رونا تو بھئی شیخ ظہور الدین حاتم سترھویں صدی میں کہہ گئے تھے کہ رانڈ رونا ہے۔
آج صبح ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر بزبان فرنگ نظر آئی اور ہمارے کالم کا سامان کر گئی۔ آئیے اس کا لب لباب دیکھتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ آپ اپنے مالکان کی شکایت کریں، ازراہ کرم ذرا توجہ کیجیے۔ کسی بھی کاغذ کی پشت پر اپنی کل تنخواہ لکھ لیجیے۔ اب اسے دوگنا کر دیجیے۔ یہ وہ رقم ہے جو کمپنی آپ کو ملازم رکھنے کے ضمن میں مختلف جگہوں پر ادا کرتی ہے۔ آپ جس دفتر جاتے ہیں، اس کا کرایہ، آپ کو ملنے والی چائے اور دیگر ماکولات کا خرچہ، بجلی، گیس اور انٹرنیٹ کے اخراجات، پانی کہ اب بوتلوں میں آتا ہے تو اس کے بھی پیسے، عید بقر عید اور سالانہ بونس، ایچ آر، منیجمینٹ اور دیگر شعبوں کے اخراجات، آپ کا پراویڈنٹ فنڈ، انشورنس، میڈیکل، آپ کے سفری اخراجات اور دیگر ایسے کئی چھوٹے خرچے ملا کر آپ کی تنخواہ سے تقریباً دوگنی رقم میں آپ اس ادارے کو ’پڑتے‘ ہیں۔ اب اس رقم کو 22 (مہینے میں کام پر جانے کے دن) سے تقسیم کر دیجیے۔ جو حاصل آئے اسے دوبارہ آٹھ (جتنے گھنٹے آپ کام کرتے ہیں) سے تقسیم کیجیے۔ مثال کے طور پر آپ 50,000 روپے کماتے ہیں، دوگنا کیجیے گا تو ہوئے ایک لاکھ روپے۔ اب فی دن کا حساب لگایئے، بائیس سے تقسیم کرنے پر 4,545 روپے بنتے ہیں۔ اب اسے پھر آٹھ سے تقسیم کیجیے، یہ بنے 568 روپے۔ تو بھائی جب آپ سگریٹ پینے جاتے ہیں، کھانا کھانے کا وقفہ ہوتا ہے، دیگر حوائج غیر ضروریہ کو جاتے ہیں، فون پر بیگم، امی یا ماسی سے بات کر رہے ہوتے ہیں، نماز پڑھنے کو جاتے ہیں، درج بالا تمام شکایات ایک دوسرے سے کر رہے ہوتے ہیں، یا انٹرنیٹ پر یہ تحریر پڑھ رہے ہوتے ہیں، عین اس وقت آپ کے مالکان کو آپ فی گھنٹہ تقریباً چھ سو روپے میں ’پڑ‘ رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو اب بھی منیجر صاحب سے شکایت ہے تو بسم اللہ کیجیے، ای میل لکھ ڈالیے، آپ یقیناً حق پر ہیں، اور اگر نہیں تو بھئی خدارا اپنی فی گھنٹہ اوقات 600 روپے تو ثابت کیجیے۔ ( اصل انگریزی متن میں تنخواہ ایک لاکھ فرض کی گئی ہے، فکر ہر کس بقدر ہمت اوست، آپ بھی حسب ضرورت گھٹا بڑھا لیجیے)
ہمیں تو خاصا افاقہ ہے یہ تحریر پڑھنے کے بعد، آپ میں سے چند ایسے ہوں گے جنہیں ان تمام مندرجات سے ہرگز اتفاق نہیں ہو گا۔ جی، آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں۔ آپ کی تنخواہ اس سے کافی کم ہے اور کام کرنے کے اوقات قدرے زیادہ ہیں، ایسا ہی ہے؟ اچھا، ٹھیک ہے، اب آپ کو ایک اور دنیا کی سیر کرواتے ہیں۔ ذرا دماغ پر زور ڈالیے اور وہ دن یاد کیجیے جب آپ نے پڑھائی مکمل کی تھی۔ آپ کی سوچ اس وقت کیا تھی۔ ’نوکری‘ کیسی بھی کہیں بھی مل جائے، بس مل جائے۔ بھئی مڈل کلاسیا پڑھتا ہی اس لیے ہے کہ کماؤ پوت بنے، ماں باپ کو آرام دے سکھ دے اور شادی کر کے چاند سی بہو ان کے سر پر لا بٹھائے۔ تو آپ نوکری کے لیے بھاگے پھرے، سفارشیں ڈھونڈیں، لاتعداد انٹرویو ہوئے، آخر نوکری مل گئی۔ کتنی مٹھائیاں بانٹی گئیں، کتنے دوستوں کو ڈنر دیئے گئے، کیا کیا خواب دیکھے گئے۔ پہلی تنخواہ آئی اس کی خوشی سوچیے، اپنے پیاروں کے لیے خریداریاں کی گئیں، تحفے تحائف دیئے اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ اب وہ سڑکیں جہاں آپ ویگنوں میں سفر کرتے تھے انہی پر موٹر سائیکل یا گاڑی دوڑانے لگے۔ شادی کر لی، بچے ہو گئے۔ اسی کم تنخواہ کی نوکری میں کیا۔
اب یہ تنخواہ کم لگنے لگی، نوکری بری لگنے لگی، ایسا کیوں ہوا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے، طوالت سے بچنے کو چند باتوں پر غور کرتے ہیں۔
آپ کے بچپن میں گھر میں کتنے اے سی، ٹی وی اور فریج ہوتے تھے؟
اگر اے سی یا کولر ہی تھا تو کتنے گھنٹے چلتا تھا؟
آپ کے ہاں چھوٹے موٹے فاصلے پیدل چل کر طے کیے جاتے تھے یا پٹرول پھونک کر؟
آپ خود کن سکولوں میں پڑھے اور بچوں کو کہاں پڑھا رہے ہیں؟
آپ کے اماں باوا نے کتنی بار فاروق ٹیکسٹائل، گل احمد کا لٹھا یا اس زمانے کے واحد مشہور برانڈ ٹی جیز کے کپڑے پہنے؟
آپ کے ہاں مہینے میں کتنی دفعہ باہر کھانے کا رواج تھا؟
آپ کے ہاں پانی بوتلوں میں آتا تھا یا ٹونٹی سے؟
بیماری کی صورت میں آپ گلی کے کونے والے ڈاکٹر کو دکھاتے تھے یا سپیشلسٹ کا رخ کرتے تھے؟
آپ کے پاس کتنے جوتے کپڑے ہوتے تھے اور اسی عمر میں آپ کے بچوں کے پاس کتنے ہیں؟
ٹچ سکرین موبائل فون پر دنیا بھر سے جڑے رہنے کا کبھی خواب میں بھی سوچا تھا؟
یہ رنگ برنگی کریمیں، جل، پرفیوم آپ کے والدین کس حد تک استعمال کرتے تھے؟
گھر میں سبزی کتنے دن بعد پکتی ہے اور گوشت (مرغی، گائے، بکرے کا) کتنے دن بعد؟
پیمپر اور دودھ کے ڈبے آپ نے اپنے بچپن میں کتنے استعمال کیے، جائیے، اماں سے پوچھ لیجئے گا۔
آپ کے بچے ٹیبلٹ کمپیوٹر کے بغیر بہلتے نہیں، آپ بچپن میں کیسے بہلتے تھے؟
خیر جانے دیجیے، کافی جھانک لیا اپنے گریبانوں میں۔ تو بھئی کم پیسوں کا رونا جو ہے اس کا حل زیادہ پیسے کمانے میں ہے، اضافی کام کیجیے، چھوٹا موٹا کاروبار کیجیے، آمدنی بڑھایئے، نہیں بڑھا سکتے تو جہاں کام کر رہے ہیں وہیں کچھ جذبہ ایمانی دکھایئے، درج بالا سوالوں کے صحیح حل ڈھونڈیئے اور شانت ہو جائیے۔

پس نوشت ۱: فارغ اوقات میں ٹی وی دیکھنے کے علاوہ کچھ بھی اور کر لیجیے دماغی سکون نہ ملے تو فقیر کا سرمہ استعمال کرنا چھوڑ دیجیے۔
پس نوشت ۲: سیلز ریپ حضرات جمع تقسیم نہ کریں، صرف فیلڈ میں گزارے گئے وقت کا حساب کریں۔
پس نوشت ۳: راقم ہرگز نواب ابن نواب نہیں ہے، تیسری پشت ہے اس دشت کی سیاحی میں

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
13 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments