پولیس کیسے ٹھیک ہو؟


تقسیم ہند و پاک کے وقت اور ایک طویل عرصہ بعد تک پاکستان بھر میں چاہے وہ سندھ کی ہو یا پنجاب کی پولیس ، یا پھر خیبر پختون خواہ کی ہو یا بلوچستان کی پولیس رائج قوانین کو اختیار کیا کرتی تھیں. اور کوشش ہوتی تھی کہ جرم ختم ہو، مجرموں کی سرکوبی ہو، معاشرہ درست راستے پر چلتا رہے۔
جب ہم سکول کالج میں پڑھا کرتے تھے تو اکثر پولیس کو چھوٹے اور بڑے ڈنڈوں سے لیس نظر آتے تھے، بڑے بڑے جلسوں کی حفاظت یا حفاظتی اقدامات کے لئے ڈنڈہ بردار پولیس موجود ہوا کرتی تھی، ہنگاموں کے دوران اور جلوسوں کے ساتھ بھی ڈنڈابردار پولیس ہوا کرتی تھی اور پیچھے پیچھے آنسو گیس کا استعمال والے ہوا کرتے تھے، بندوق والے ضرور ہوتے تھے لیکن نظر نہیں آتے تھے۔
کسی بھی ہنگامہ کو کنٹرول کرنے کے لئے پہلے موقع پر موجود میجسٹریٹ کے حکم پر لاٹھی چارج ہوا کرتا تھا اور لاٹھی چارج یا پھر ساتھ آنسو گیس کے استعمال سے ہی صورتحال پر قابو پا لیا جاتا تھا، گولی بہت کم کم موقعوں پر چلا کرتی تھی، وہ بھی مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر گولی نہیں چلا کرتی تھی۔
جس طرح ضیاء الحق کے دور نے معاشرہ کے ہر حصے کو نقصان پہنچایا، تباہی پیدا کی ویسے ہی پولیس ہو یا، افسر شاہی کا نظام تباہی کی طرف جاتا رہا۔ افغانستان کی صورتحال کے بعد اور افغانستان کی جنگ میں ہمارے کود جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے پولیس کو بھی آتشیں اسلحہ سے دھیرے دھیرے لیس کیا جاتا رہا، لاٹھی اور لاٹھی چارج کی اصطلاح میڈیا، اخبارات سے غائب ہونا شروع ہو گئی۔ پولیس کے حوالے سے اب یا سیدھا گولی چلانے کی اصطلاح یا پھر پولیس مقابلہ کی اصطلاح عام ہوتی گئی اور اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، ہر روز پولیس کی زیادتی، براہ راست گولی چلانے، یا پولیس مقابلوں کی کی خبروں اور کلپس کو دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ پولیس کی چھترول یا پھر ملزموں پر گھونسوں کی بارش کے کلپس سوشل میڈیا پر عام دیکھے جا سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ ملک بھر میں پولیس کو ہوا کیا، پولیس کے نظام میں تشدد جھوٹ مکاری، بے بنیاد مقدمے، رشوت، بھتہ خوری کہاں سے آئی، یاکیسے پولیس کی وردی میں مجرموں نے پناہ لے لی؟
ضیاء کے دور میں جہاں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا گیا، کیوں کہ افغانستان میں جہاد کے نام پر روس کے خلاف جنگ لڑی گئی، اور جہاد کے نام پر یہاں سے جتھے افغانستان گیے یا پھر بھیجے جاتے رہے. یہ جہادی گروپس صرف قبائیلی علاقوں سے نہیں گئے، بلکہ اس زمانے میں کراچی جیسے بڑے شہروں سے بھی نوجوان بڑی تعداد میں افغانستان گئے اور افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ روس اور سوشل ازم کو شکست دینے کے لئے لڑتے رہے اور یہ کہ کہیں روس گرم پانیوں تک پہنچ کر سوشل ازم کو مڈل ایسٹ اور سعودی عرب کی طرف نہ لے جائے۔
افغان جنگ کی وجہ سے قبائلی علاقوں سے آبادی دوسرے شہروں کو منتقل ہوئی، ان کے عزیز جو افغان جنگ میں مصروف تھے، وہ آتے جاتے رہے اور جنگ کے بعد روزگار نہ ہونے کی وجہ سے جرائم میں بھی ملوث ہوئے. پولیس نے ان گروپس کو ختم کرنے کے بجاے ان کو پالا پوسا اور اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا۔
ضیاء کے دور کے خاتمہ کے بعد جب جمہوری ادوار شروع ہوے تو اٹھاسی سے اب تک پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے صرف نعرہ لگتا رہا، چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا پھر نون لیگ کی حکومت انہوں نے جہاں جہاں ان کی حکومت بنی، ایک دوسرے نمٹنے کے لئے پولیس کو خوب استعمال کیا اور سیاسی بھرتیاں کیں۔ نہ صرف سیاسی بھرتیاں کیں بلکہ سیاسی کارکن پولیس میں بھرتی کئے، اس میں متحدہ قومی مومنٹ بھی پیچھے نہیں رہ سکی اور کراچی حیدرآباد پولیس میں اپنے لوگوں کی خوب بھرتیاں کیں اور اپنے مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا۔
مشرف دور میں پولیس اصلاحات کی گئیں، پولیس آرڈر دو ہزار دو کسے یاد نہیں؟ پھر پولیس اور ضلع کی انتظامیہ کو منتخب ناظم کے ماتحت کیا گیا اور کہا گیا اب ان دودنوں محکوں کوعوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ چلایا جائے گا. اور اقتدار اور انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔
کچھ عرصہ نظام چلا ، لیکن پھر وہی سیاستدان بلدیاتی اداروں اور پولیس کے نظام کے خلاف ہو گئے اور ان میں ترامیم شروع کر دیں یہاں تک کہ پرانے نظام کو بحال کر کے چھوڑا ۔ آخر وہ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ فنڈز کا استعمال ہو یا اختیارات کا، وہ کیسے اپنے ہاتھ سے سونے کی چڑیا کو کو نکل جانے دیتے َ؟
عمران خان کا دعوی ہے کہ انہوں نے خیبر پختون خواہ میں پولیس اصلاحات کیں، لیکن وہاں کی پولیس تو ہمیشہ سے بہتر ہوا کرتی تھی۔
انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ پنجاب پولیس میں اصلاحات کر کے اسے غیر سیاسی کیا جائے گا، اس کے لئے انہوں نے ناصر درانی کو منتخب کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خیبر پختون خواہ کی پولیس کو انہوں نے بہتر کیا۔ لیکن انہیں اس وقت اپنے ہاتھ اٹھا دینا پڑے جب پاکپتن میں ڈی پی او کو صرف اس وجہ سے بدل دیا گیا کہ اس نے خاور مانیکا جو بشریٰ بی بی کے سابق شوہر ہیں کی رات کے اندھیرے میں بھاگتی گاڑی کو چیک کیا گیا تو ان کی شکایات پر کان نہ دھرے ۔ لیکن ناصر درانی کے بعد آج تک کسی دوسرے پولیس افسر کو اصلاحات کے لئے منتخب نہیں کیا گیا۔
ساہیوال کا سانحہ پولیس کی بربریت کا وہ واقعہ ہے جسے کئی دھائیوں تک یاد رکھا جائے گا، یہ کیسے محافظ پولیس ہے جو گاڑی کا پیچھا کر کے، مبینہ دہشت گرد تک پہنچ کر اسے پکڑنے کے بجائے، گاڑی میں سوار نہ صرف بے قصور خاندان کو ختم کر دیتی ہے بلکہ کم سن بچوں کو بے یار مدد گار چھوڑ دیتی ہے۔
اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے ان تین بچوں کی شکلیں ہیں جنکے سامنے ان کے ماں باپ اور ایک بہن کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا. ذیشان ڈرئیور اگر انتہا پسند تنظیم داعش کا دہشت گرد تھا تو اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، اسے گرفتار کر کے اس سے گروہ کے بارے میں مزید تفصیلات مل سکتی تھیں۔
پولیس کے اور افسر شاہی کے نظام کو جب تک غیر سیاسی نہیں کیا جاتا، اور جواب طلبی کو یقینی نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک سانحہ ساہیوال جیسے واقعات ہوتے رہیں گے، اور ہم دنیا کے سامنے یوں ہی آنکھیں جھکا کر شرمندہ ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).