اگر اللہ میاں ہمیں کالا کلوٹا بنادیتے تو ہم کیا کرتے؟


فروری بلیک ہسٹری مہینہ ہے جس میں ‌ امریکہ میں ‌ کالوں کی جدوجہد اور ان کی منفرد تہذیب پر روشنی ڈالی جائے گی اور ان کی کامیابیوں ‌ کا جشن منایا جائے گا۔ حال ہی میں ‌ ایک واقعہ سامنے آیا جس میں ‌ ایک پاکستانی کرکٹر نے ایک افریقی کھلاڑی کو کالا کہہ کر پکارا جس پر اس کی پکڑ ہوئی۔ اچھی بات ہے کہ اس قصے سے لوگوں ‌ کو یہ سمجھنے کا موقع ملے گا کہ آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں ‌ نسل پرستی کے لیے جگہ نہیں اور نسل کی بنیاد پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کا دور گزر چکا ہے۔

کچھ دن پہلے میرے بیٹے نوید نے مجھ سے کہا کہ آپ وہ نظم لکھ کر دے دیں ‌ جو آپ ہمیں ‌ بچپن میں ‌ صبح جگاتے ہوئے سناتی تھیں۔ میں ‌ نے کئی بار پوچھا کہ اس کا کیا مقصد ہے، امریکی بچے تو اردو نہیں پڑھ سکتے۔ آخر کار اس نے بتادیا کہ وہ اس نظم کا اپنے بازو پر ٹیٹو بنوانا چاہتا ہے۔ یہ نظم کچھ یوں ‌ ہے،

اٹھو بیٹا آنکھیں ‌ کھولو
بستر چھوڑو اور منہ دھو لو
اتنا سونا ٹھیک نہیں ‌ ہے
وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے
سورج نکلا تارے بھاگے
دنیا والے سارے جاگے
پھول کھلے خوش رنگ رنگیلے
سرخ سفید اور نیلے پیلے
تم بھی اٹھ کر باہر جاؤ
ایسے وقت کا لطف اٹھاؤ

ٹیٹو ساری زندگی کے لیے جسم پر بنے رہتے ہیں اور لوگ وہی اپنے جسم پر لکھواتے ہیں جس کی ان کی زندگی میں ‌ بہت اہمیت ہو۔ تمام مائیں ‌ اپنے بچوں ‌ سے محبت کرتی ہیں۔ دنیا کے سارے بچے برابر ہیں۔ گورے، کالے، جنوب ایشیائی، چینی، ہسپانوی یا ریڈ انڈین۔ ہر نسل اور ملک کے انسان برابر حقوق رکھتے ہیں۔ ماں ہونے کے لحاظ سے ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بیٹوں ‌ کو یہ سکھائیں کہ وہ جلد کے رنگ کی بنیاد پر کسی کالے یا گورے سے نہ ہی کم ہیں ‌ اور نہ ہی زیادہ۔

کسی بھی انسان کے اچھا یا برے ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ دنیا کے باقی لوگوں کے لیے مفید ہے یا نقصان دہ۔ پچھلے دو ہزار سال سے سفید فام آدمی کی بقایا دنیا پر چڑھائی، قتل و غارت اور لوٹ مار سے ایک ایسی نفسیات ابھری ہے جس میں ‌ عقلمندی، ذہانت اور خوبصورتی کا معیار سفید فام نسل کے پیمانے سے جوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان خصوصیات کا کسی نسل سے کوئی تعلق نہیں ‌ ہے۔ پچھلی صدی تک سائنسدان اور ڈاکٹرز تک یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ افریقی جینیائی لحاظ سے کم تر ہیں اور غلام بننے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔

افریقی نسل کے افراد کی امریکہ میں غلامی اس ملک کی تاریخ کا ایک شرم ناک باب ہے جس کا ازالہ ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ 2019 ہے اور میرا گھر نارمن، اوکلاہوما میں ‌ ہے۔ 1960 تک اس شہر میں ‌ ایک بھی گھر کسی ایسے شخص کا نہیں تھا جو سفید فام نہ ہو۔ 1960 کی دہائی میں ‌ یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں ایک افریقی امریکی پروفیسر جارج ہینڈرسن کو سوشیالوجی کے ڈپارٹمنٹ میں ‌ نوکری ملی لیکن وہ یہاں ‌ گھر نہیں ‌ خرید سکتے تھے۔

پروفیسر ہلبرٹ نے ان کے لیے یہ مکان خریدا۔ جب پروفیسر جارج ہینڈرسن اور ان کی بیوی باربرا ہینڈرسن اپنے سات بچوں ‌ کے ساتھ ڈیٹروئٹ سے نارمن منتقل ہوئے تو ان کے سفید فام پڑوسیوں ‌ نے انہیں کافی پریشان کیا۔ کافی سارے لوگوں ‌ کے صحن میں ‌ ”فار سیل“ کے سائن بھی لگا دیے گئے۔ یعنی وہ اپنی نفرت کا اظہار اس طرح‌ کررہے تھے کہ ہمیں ‌ ایک کالے کے پڑوس میں ‌ رہنا پسند نہیں ‌ ہے۔ یہ بات مجھے اس لیے معلوم ہے کہ پروفیسر ہلبرٹ کی بیوی لوئی ہلبرٹ جن کی عمر اب نوے کی دہائی میں ہے میری اچھی دوست ہیں۔

اوکلاہوما یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گویل کے لیکچرز سننے کے بعد مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ نارمن ایک ”سن ڈاؤن ٹاؤن“ ہوتا تھا یعنی یہ ان شہروں میں ‌ سے تھا جہاں ‌ سورج ڈوبنے کے بعد کسی کالے کو یہاں موجود‌ ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر سورج ڈوبنے کے بعد کوئی کالا باہر نظر آجاتا تھا تو اس پر تشدد ہوتا اور کئی لوگوں کو جان سے بھی مار دیا گیا۔ پچاس سال میں ‌ یہ شہر کتنا بدل گیا۔ آج اگر یہ ہمارے لیے اچھی جگہ ہے تو اس لیے کہ بہت سارے لوگوں ‌ نے نسل پرست نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور تمام انسانوں کے لیے انصاف طلب کیا۔

جب ہم نے نارمن میں ‌ یہ گھر خریدا تھا تو کچھ دن بعد میرے سامنے والی سفید فام پڑوسن اور برابر والی پڑوسن میرے گھر آئیں ‌ اور انہوں نے مجھے تحفے میں ‌ ایک کھانے پینے کی چیزوں سے بھری باسکٹ دی اور اپنے محلے میں ‌ خوش آمدید کہا۔ پاکستان کے اندر بھی تمام شہریوں کو دنیا کے تمام نسلوں ‌ اور مذاہب کے افراد کے ساتھ اسی طرح‌ خوش سلوکی برتنے کی ضرورت ہے۔ اپنے آپ کو اچھا بنا لیں تو بین الاقوامی تاثر خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔

جنوب ایشیائی خطے میں ‌ بھی پچھلے ہزار سال میں ‌ سفید فام عرب، ترک اور انگریز حملہ آور ہوئے اور انہوں ‌ نے لاکھوں ‌ کی تعداد میں ‌ مقامی افراد کا قتل عام کیا، لوٹ مار مچائی اور ان کو اپنا ماتحت بنایا جس کی وجہ سے وہ لاشعوری یا شعوری طور پر خود کو سفید فام نسل سے کم تر سمجھنے لگے۔ آج بھی رنگ گورا کرنے کی مصنوعات کی جنوب ایشیا میں ‌ ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ رنگ گورا ہونے کا تعلق خوبصورتی سے جوڑا گیا ہے حالانکہ جلد کے رنگ کا کسی انسان کی خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں ‌ ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے والد کی وفات ہوئی تو میری امی کی عمر 24 سال تھی اور ان کی تین بیٹیاں ‌ تھیں ‌ اور ایک بیٹا تھا۔ ہم سب نارمل براؤن بچے تھے۔ منجھلی کا رنگ باقیوں سے کچھ گہرا تھا جس پر پڑوسی اور رشتہ دار ہماری امی کو یہ یاددہانی کراتے رہتے تھے کہ ان کی بیٹیاں ‌ کالی ہیں ‌ اور شوہر کے مر جانے کے بعد وہ ان کو جہیز بھی نہیں دے پائیں گی اس لیے مشکل ہے کہ کبھی ان کی شادیاں ہوسکیں ‌ گی۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھیں ‌ تو ان بے وقوفانہ خیالات پر ہنسی آتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2