”لبرل ازم ایک فیشن“


ہمارے یہاں خالص چیزوں کا فقدان اک قحط کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ چاہے وہ جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے اشیائے خوردونوش ہوں یا روحانی ضروریات پوری کرنے کے لیے عقائد و نظریات ہوں۔ ہر چیز ملاوٹ سے اک ایسی ملغوبہ شکل اختیار کر چکی ہے جو ہمارے اذہان کو کند کر کے ہماری ذہنی نشوونما کے دروازے بند کر چکی ہے۔ آج کل ہم اپنے یونیورسٹی فیلوز یا ایلیٹ کلاس کے لوگوں سے کسی Religious matter پر ڈسکشن سٹارٹ کریں تو وہ فوراً آگے سے منہ گول سا کر کے یہ جواب دیتے ہیں

”Sorry bro! I ’m liberal۔ Don‘ t talk me regarding religious matter“۔

یہ بیچارے احساس کمتری کے مارے، دو چار بول انگریزی کے بول کر خود کو فیشن کے طور پر لبرل متعارف کرواتے ہیں۔ او میرے ”بھولے بھالے معصوم بھائیو“ خود کو لبرل ڈکلیئر کرنے سے پہلے کسی آکسفورڈ، اگر نہیں تو کسی تھرڈ کلاس انگلش ڈکشنری سے ہی لبرل کا مطلب تو پڑھ لیتے۔ یہ ایک پورا ”ازم“ ہے جو اپنے اندر زندگی کے تمام تر معاملات میں انسان کو ہر طرح کی بے لگام آزادی دینے کی بات کرتا ہے۔

جو انسان کو شخصی آزادی، نظریہ و فکر کی آزادی، freedom of speech، freedom of expression سے شروع کر کے ”تشکیک“ کے مراحل سے گزار کر Atheism یعنی الحاد پہ لا کھڑا کرتا ہے۔ میرے عزیز! آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ اصل لبرل اور حقیقی مسلمان میں کیا فرق ہے۔ ”لبرل وہ ہے جو اپنے عقائد، نظریات، ذاتی اور خاندانی معاملات، لین دین، تجارت، تعلقات غرضیکہ ہر طرح سے وہ تمام تر الہامی اصول و قوانین کو رد کرتے ہوئے، رب العالمین کے فرامین سے ہٹ کر اپنے وضع کردہ اصول و ضوابط اور ذاتی من مانی کے مطابق زندگی گزارنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔

پیارے بھائی! کیا اب بھی آپ خود کو ایک لبرل کہلوانا پسند کریں گے کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ رب العالمین اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حق نہیں کہ وہ میرے دن رات کے چوبیس گھنٹوں کا مکمل شیڈول Cmplt 24 hours schedule سیٹ کر کے دیں کہ میں اس کے مطابق کیسے اپنی زندگی گزاروں۔ میں صبح نماز کے لئے کس ٹائم جاگوں، رزق حلال کس طرح کماؤں، بزنس کس طریقے سے کروں، جوس کون سا پیوں، گوشت کون سا کھاؤں، کس سے لڑوں، کس سے ملوں، کس سے دوستی کروں، کس سے دشمنی کروں، کس سے شادی کروں یا کس سے پردہ کروں یا کرواؤں۔

مطلب کہ لبرل ازم ایک مکمل paradigm ہے جو اسلام سے بالکل متضاد ڈائریکشن میں Built کیا گیا ہے۔ جبکہ اسلام اس چیز کی تو اجازت دیتا ہے کہ اگر آپ Practical Muslim نہیں ہیں، نیک اعمال کرنے میں سست واقع ہوئے ہیں، یا گناہ بھی کر لیتے ہیں تو ”توبہ“ کر لیجیے آپ پر اللہ تعالیٰ ناراض نہیں ہوں گے لیکن اگر آپ رب العالمین کی Supremacy کو ہی چیلنج کرتے ہوئے اس کا انکار کر دیتے ہیں تو یہ عقائد اور نظریات کی جنگ ہے جس سے آپ کا اسلام سے رشتہ نہیں رہ سکتا۔

یوں ”لبرل مسلمان“ کی اصطلاح ہی غلط ہے کیونکہ مسلمان کے تو لغوی معنی ہی یہ ہیں کہ ”ایسا تابع فرمان اونٹ جس کو اپنے مالک کی نکیل ڈال دی گئی ہو“ یعنی کہ جو ہر طرح کے معاملے میں Given directions کو ہی فالو کرے۔ اب بھلا ایک انسان بیک وقت مسلمان اور لبرل کیسے ہو سکتا ہے۔ جبکہ ایک انسان بیک وقت حقیقی مسلمان اور گناہ گار مسلمان ضرور ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).