اجی سرفراز تو بے گناہ ہے


چند ماہ قبل ایک نوجوان انگریز لڑکی شراب کے نشے میں دُھت تھی ہوسکتا ہے شراب کے ساتھ ساتھ کوئی ہلکی پُھلکی ڈوز ڈرگ کی بھی لے رکھی ہو ایک پاکستانی کے فاسٹ فُوڈ ریسٹورینٹ پر پِزا ( پِٹزا ) کا آرڈر دینے آئی، وِیک اینڈ تھا اور رَش معمول سے ذرا زیادہ بھی۔ اُس کا آرڈر سَرو کرتے تھوڑا وقت بھی لگ گیا اور کُچھ شاید وُہ جلدی میں بھی تھی کہ لگی غُصے کا اِظہار کرنے اور ٹِل پر کھڑے سٹاف جو کہ ایک پاکستانی ہی تھا کو ”پاکی“ کہا اُس نے ایک بار نظرانداز کردِیا لیکن چند ہی مِنٹس بعد اُس نے پھر یہی کہا تو اُس پاکستانی لڑکے نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور دونوں میں تلخ کلامی بھی ہوگئی اور وُہ لڑکی اپنا آرڈر لے کر روانہ ہوگئی۔

اُس کے رویے کی شکایت پولیس میں درج کرا دِی گئی۔ سی سی ٹی وی ریکارڈنگ میں عُموماً آواز کی ریکارڈنگ نہیں ہوتی لیکن پولیس اِس نتیجے پر پُہنچی کہ کوئی آرگومینٹ ہُوا ہے جو کہ خُوشگوار ہرگِز نہیں تھا اور یہ بھی معلُوم ہُوا کہ وُہ لڑکی ایک پولیس افسر تھی۔ پولیس کے پاس لڑکے کے بیان کے عِلاوہ کوئی ثُبوت نہیں تھا کہ اُس نے نسلی تعصب پر مبنی لفظ یا الفاظ کہے ہیں لیکن اُسی لڑکی کے ایک کولیگ نے جو خُود بھی پولیس افسر تھا اور اُسی کی نسل سے تھا یعنی گورا تھا اُس کے خِلاف گواہی دِی کہ یہ پہلے بھی ایسے ایک دو بار کر چُکی ہے، عدالت نے اُس پولیس افسر لڑکی کو نہ صِرف جُرمانہ کیا بلکہ پولیس کی نوکری سے بھی برخاست کردِیا۔

جناب یہ ہے مغرب کا معیار اور یہ ہے سخت سٹانس ایسے نسل پرستانہ جُملوں کی ادائیگی پر۔ اُدھر ہمارے ننھے مُنے کاکے، دُودھ کے دانت بھی ابھی جِس کے نہیں ٹُوٹے جو ابھی بولتا بھی توتلا ہے اُس معصوم بچے سرفراز نے جو اللہ کی دراز کی رسی کی طرح پاکستان کرکٹ ٹیم کے سر پر ایک عفریت کی طرح نازل ہُوا ہے اُس نے ایک جُنوبی افریقہ کے بَلے باز کو ”ابے کالے“ کہہ دِیا تو سٹیمپ میں لگے مائیکس نے اُس کے الفاظ کی پکڑ کرلِی اور موصوف آئی سی سی سے چار روزہ میچز کی پابندی اپنے اُوپر لگوا بیٹھے جو کہ میری نظر میں کم سے کم سزا ہے۔

اب ہمارے بعض پاکستانی کہتے ہیں کہ جی سرفراز کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے کیونکہ ہمارے ہاں کِسی کو کالا کلوٹا کہنا بڑی بات نہیں اور تو اور مائیں بھی اپنے بچوں کو کلوا کلوٹا کہہ دیتی ہیں اور دُوسرا اگر کوئی انڈین کھلاڑی ایسا کہتا تو انڈین کرکٹ بورڈ اُس کو بچا لیتا لیکن چُونکہ پاکستان کا کرکٹ بورڈ ایک کمزور کرکٹ بورڈ ہے تو وُہ اپنے کھلاڑی کو سزا سے نہ بچا سکا۔

اچھا اب قِصہ یہ ہے کہ اگر ہمیں کوئی ”مُسلا“ کہہ دے تو ہمارے تَن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، کوئی ہمیں دہشتگرد قوم کہہ دے تو ہمارا گِلہ بجا ہے، مغرب میں ہمیں کوئی پاکی کہہ تو بھی ہمارے ساتھ زیادتی ہے لیکن ہم کِسی کو کالا کہہ دیں تو وُہ ہمارا سٹائل ہے۔ واہ جی واہ! کیا ہم ضرورت سے زیادہ معصوم ہیں یا دُنیا کو بے وُقوف سمجھتے ہیں؟

کرکٹ میں سلیجنگ ہوتی ہے لیکن وُہ سلیجنگ کوئی ماں بہن کی گالی یا مذہبی یا نسل پرستانہ جُملہ بازی نہیں ہوتی بلکہ ذاتی باتیں ہوتی ہیں جیسا کہ ابھی بچے ہو پہلے کھیلنا سیکھو، تُم مُجھے شاٹ مار کر دکھاؤ، جاؤ اپنے گھر میں پریکٹس کرو وغیرہ۔ ویسے بھی ایک بُرائی دُوسری بُرائی کا جواز نہیں بن سکتی، دس گُناہگار بھی بچ نکلیں اور گیارہواں پھنس جائے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلے دس بچ نکلے ہیں تو اِس کو بھی بخش دِیا جائے۔ ہم تو عامر جیسے مُجرم کو بھی کمسِن کہہ کر دوبارہ اپنا ہیرو بنا سکتے ہیں کہ وُہ شاید ہمیں چاہیے تھا لیکن محمد آصف اور سلمان بٹ کو کبھی معافی نہیں مِل سکتی کیونکہ ہمارے انصاف کے معیار بھی سب سے جُدا ہیں۔

سرفراز کو کیا کہیں کہ جِس مُلک میں فائزہ بیوٹی کریم سب سے زیادہ بِکتی ہو اور لڑکوں لڑکیوں کو رنگ گورا کرنے کا جُنون ہو وہاں ہم گندمی اور سانولی رنگت والے کالے رنگ کو دیکھ کر احساسِ برتری کا شِکار نہ ہوں تو اور کیا کریں؟ ہاں سرفراز لیکن بے گُناہ ہے کیونکہ اُس کو پتہ ہی نہیں کہ اُس نے کیا کِیا ہے۔ ُسعودیہ بیگ میں مُنشیات رکھ کر لے جائیں اور موت کی سزا پا لیں پھر یہ کہیے گا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔

Ignorance of law is no excuse

آپ کو قانُون کا عِلم نہیں تھا اِس لئے جو جُرم آپ نے کیا ہے اُس کی سزا آپ کو نہیں ملنی چاہیے ایک بچگانہ عُذر ہے۔ لیکن کیا کہوں کہ سرفراز بے گُناہ ہے کیونکہ ہمیں بطور ایک پاکستانی اور شاید بطور قوم ( اگرچہ ہم ایک قوم نہیں ) مظلومیت کا کارڈ پَلے کرنی کی عادت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).