سانحہ ساہیوال: آزادی کے نام پہ بس ایک مینار ملا ہے


بچوں کے سامنے ان کے والدین اور بڑی بہن کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا عمل اگر آپ کے خیال میں درست تھا تو پھر سی ٹی ڈی کے افسران اور اہلکاروں کو برطرفی اور عدالتی کارروائی کی ناحق زحمت کیوں دی۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ مقتول ذیشان سے متعلق تحقیقات کے لئے مزید وقت درکار ہے اور اگلا جملہ ادا کرتے ہیں کہ آپریشن 100 فیصد درست تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ مقتول خلیل اور اس کی فیملی بے گناہ تھی، لہذا سی ٹی ڈی افسران کو عہدوں سے ہٹا رہے ہیں اور واقعہ کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشتگردی کی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ پنجاب کے وزیر قانون سے اتنا تو پوچھا ہی جا سکتا ہے کہ جب ذیشان کے بارے میں آپ کی تحقیقات مکمل نہیں، مقتول خلیل اور اس کی فیملی بھی بے گناہ تھی تو پھر سی ٹی ڈی کی یہ ظالمانہ اور بے رحمانہ کارروائی 100 فیصد درست کس طرح ہے؟

جس وقت صوبائی وزیر قانون میڈیا کو سی ٹی ڈی کی غلطی، اپنے کوئیک ایکشن اور مقتول ذیشان سے متعلق اشتباہ بتا رہے تھے، اسی وقت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو انٹیلی جنس ذرائع سے یہ رپورٹ جاری کی گئی کہ ساہیوال واقعہ میں قتل ہونے والا ذیشا ن دہشت گرد تھا۔ ذیشان کے موبائل سے ایک اور دہشت گرد کی تصویر بھی ملی ہے اور جس گاڑی میں یہ تمام لوگ سفر کررہے تھے وہ بھی فیصل آباد میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے دہشتگرد عدیل حفیظ کی ملکیت تھی، جو اس نے مئی 2018 ء میں خریدی تھی۔

نیز یہ کہ سی ٹی ڈی کو مصدقہ اطلاع تھی کہ اسی گاڑی میں ذیشان نامی یہ دہشت گرد ساتھی دہشت گردوں کو بورے والا منتقل کر رہا ہے چنانچہ سی ٹی ڈی نے مذکورہ کارروائی ان دہشت گردوں کے خلاف کی تاہم گاڑی میں ذیشان کے ساتھ دہشتگردوں کے بجائے مقتول خلیل اور اس کی فیملی تھی۔ میڈیا میں اس کہانی کی اشاعت کے ساتھ ہی آئی جی پنجاب نے کہا کہ سی ٹی ڈی کام کر رہا ہے اور کرتا رہے گا، ڈیپارٹمنٹ کے مستقبل کو کوئی خطرہ نہیں۔ جناب خطرہ ڈیپارٹمنٹ کو نہیں بلکہ عوام کو ہے، جو لاپتہ بھی ہوتے ہیں اور مقتول بھی، غدار بھی قرار پاتے ہیں اور دہشتگرد بھی۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں نشانہ بننے سے کم ازکم لواحقین کے ہاتھ لاکھ، دو لاکھ تو لگ ہی جاتے ہیں مگر آپ کے ادارے کا نشانہ بننے والا اپنے پیچھے ملک و سماج دشمن سمجھے جانے والے زندہ درگور لواحقین چھوڑ کر جاتا ہے۔

میڈیا کو جاری کی گئی انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق ذیشان 2017 ء سے اداروں کی نگرانی میں تھا۔ سادگی ملاحظہ فرمائیں۔ جس دہشت گرد پہ ادارے دو سال سے مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے، اس کے خلاف اتنے عرصے میں ایسا ایک بھی قابل گرفت ثبوت حاصل نہیں کر پائے کہ جس کی بنیاد پہ اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں (یوں بھی بعض اداروں نے انسداد دہشتگردی کے نام پہ ملزمان کی گرفتاری اور عدالتوں میں پیشی کا تکلف تو چھوڑ دیا گیا ہے ) ایک طرف ماورائے قانون لوگوں کی گمشدگیوں کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے تو دوسری طرف لاوارث لاشیں ملنے کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔

مقتول خلیل اور اس کی فیملی تو ریاست پاکستان کے گمنام شہری تھے، جن کی حیثیت وطن عزیز میں محض گنتی کے ہندسوں کے سوا کچھ نہیں۔ وہ شہری کہ جن کی ہلاکتوں کا ذکر ناموں سے نہیں بلکہ گنتی کے اعداد سے ہوتا ہے۔ اتنے ہلاک، اتنے لاپتہ، اتنے بازیاب، اتنے زخمی۔ (کون تھا، کیا تھا، کیوں مارا گیا، کس نے مارا، مارنے والوں کی شناخت، یہ سوالات تو بے معنی اور اضافی ہو چکے ہیں)۔ آج اگر سانحہ ساہیوال کی بازگشت میڈیا کے ذریعے ملک کے گلی کوچوں میں ہے تو اس میں مقتولین یا قاتلوں کا کوئی کردار نہیں، کردار ہے توان تین بچوں کا کہ جو چہروں پہ والدین اور بہن کے خون کے چھینٹے لئے سکتے کے عالم میں ظالموں کے رحم و کرم پہ روبوٹ کی مانند حرکت کرتے دکھائی دیے۔

جس ذیشان کو انتہائی خطرناک دہشت گرد قرار دے کر سی ٹی ڈی کا ادارہ اپنی اس دہشتگردانہ کارروائی کا جواز تراشنے میں مصروف ہے اس خطرناک دہشتگرد کا پاکستان کے کسی بھی تھانے میں کوئی کرمنل ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں اور نہ ہی متعلقہ اداروں نے ان دو سالوں میں اس ”دہشتگرد“ سے اتنا خطرہ محسوس کیا کہ اس کی گرفتاری کی زحمت کریں۔ اب تو سوال یہ بھی ہونا چاہیے کہ اگر وہ دہشتگرد ہی تھا تو دو سال تک اسے آزادی کیوں دی گئی؟

اور اگر آپ کے نزدیک زیادہ خطرناک نہیں تھا تو بنا کسی وارننگ کے اسے اور اس کے ساتھ ایک خانوادے کو بیچ سڑک میں چھلنی کیوں کر دیا۔ ایک طرف مذکورہ ”دہشتگرد“ کو دو سال تک آزادی کی ڈھیل دینے میں قباحت محسوس نہ کرنا اور دوسری جانب اسی ”دہشتگرد“ کو نہتا اور فیملی (معصوم بچے، خواتین) کے ساتھ دیکھنے کے باوجود بات تک کرنے کی مہلت نہ دینا دو متضاد عمل ہیں۔ ویسے بھی یہ بات تو سی ٹی ڈی کے مزاج کے ہی خلاف ہے کہ دو سال سے کوئی مطلوب دہشتگرد اس کے سامنے شہری آبادی میں موجود ہو اور وہ محض اس پہ نظر رکھنے کی حد تک محدود رہے۔

یہاں تو جائے وقوعہ سے گزرنے والے بے گناہ نوجوانوں کے برسہا برس محض اسی تفتیش کی نذر ہو جاتے ہیں کہ حادثہ کے قریب ان کا موبائل کیونکر موجود تھا۔ گزشتہ ہفتے ڈی آئی خان میں سی ٹی ڈی نے تین نوجوانوں کی قتل اور اقدام قتل کے مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی ہے، جس کے بعد ان کی فیملیز نے سکھ کا سانس لیا ہے اور علاقے میں مٹھائی بانٹی، خبر ہے کیوں؟ کیونکہ تینوں نوجوان طویل مدت سے لاپتہ تھے، لاپتہ بھی اس طرح کہ گھر سے باوردی افراد انہیں ساتھ لے کر گئے اور پھر ان کا وجود سے ہی انکاری ہو گئے۔

اب ایسے مزاج کے حامل ادارے سے کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دہشتگردی کا شبہ ہونے کے باوجود عام سے شخص کو کئی برس تک گرفتار نہیں کرے گا اور محض اس کی حرکات پہ نظر رکھے گا۔ یہاں تک کہ اس عام سے شخص کو کوئی خصوصی چھتر چھایا بھی میسر نہ ہو، نہ ہی وہ کسی کالعدم تکفیری گروہ کا سرغنہ ہو۔ نہ ہی وہ سینکڑوں افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والا اور دہشتگردوں کا ترجمان ہو، نہ ہی اس پہ دہشتگردی کی تریبت گاہوں کی زنجیر قائم کرنے کا الزام ہو، نہ ہی اس کے خلاف پڑوسی ممالک شدید تحفظات کا اظہار رکھتے ہوں، یہاں تک کہ نہ ہی اس شخص نے سینکڑوں افراد کے قتل کو اپنی سنچری اور کارنامہ قرار دیا ہو، پھر ایسے شخص کے خلاف سی ٹی ڈی کارروائی کرنے میں کیوں تاخیر کرے گی؟

مجھ سمیت ہر پاکستانی کو یقین ہے کہ مقتول ذیشان میں ان چنیدہ خصوصیات میں سے کوئی بھی خاصیت ہوتی تو یہ خونی کارروائی کبھی نہ ہوتی اور نہ ہی مقتول خلیل کے معصوم بچے یوں زندہ درگور ہوتے۔ عینی شاہدین اور بچوں کے ابتدائی بیانات سے لے کر جے آئی ٹی کی ادھوری رپورٹ تک یہ بات تو طے ہوئی ہے کہ مذکورہ آپریشن حد سے متجاوز ہی نہیں بلکہ دہشتگردانہ تھا، تاہم تاحال یہ طے نہیں ہو سکا کہ اس انتہائی اقدام کے محرکات و اسباب کیا تھے۔ محض غلط اطلاع پہ انسپکٹر لیول کا افسر اس نوع کے آپریشن کا رسک نہیں لیتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2