عبد السلام ڈے : ڈاکٹر عبد السلام کا یوم پیدائش اور پاکستان


آج سے 93 سال قبل 29 جنوری کو پاکستان (اس وقت کا متحدہ ہندوستان) کے ضلع جھنگ میں سائنس کی دنیا کے شاہ سوار ڈاکٹر عبد السلام پیدا ہوئے۔ 1979 میں فزکس کے شعبہ میں ان کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ پہلے مسلمان سائنسدان ہونے پر تو بے انتہاء اختلاف ہے۔ ان کے اپنے قول کے مطابق تو وہ مسلمان تھے لیکن پاکستان کے قانون کے مطابق وہ مسلمان نہیں تھے۔ خیر اس بحث کا فیصلہ تو اب روز محشر ہی ہوگا کہ وہ مسلمان تھے یا نہیں۔ لیکن ان کے پاکستانی ہونے پر تو کوئی اختلاف نہیں۔ بلا شک و شبہ وہ پہلے پاکستانی ضرور تھے جنہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ لیکن افسوس کہ ان سے پاکستانی ہونے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔

ہمارے ملک میں ہر اداکار، ہر سیاستدان، ہر گلوکار کا یوم پیدائش تو دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن سائنس، تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لئے کام کرنے والے کو بالکل فراموش کر دیا گیا ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہماری ملکی سوچ کیا ہے اور ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں ناچ گانے اور سیاسی لوٹ مار مچانے والوں سے تو پیار ہے لیکن علم کی شمع روشن کرنے والوں اور اندھیری رات میں اپنی محنت سے اس چراغ کو جلائے رکھنے والوں سے نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے علم اور محنت سے اپنا لوہا ساری دنیا میں منوایا اور جس شخص نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیادی اینٹ رکھی اس کو ہم فراموش کر بیٹھے ہیں۔

آج کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کسی نے ملک کے اس ہیرو کی یوم پیدائش کا ذکر نہیں کیا۔ آج کے پروگرام کی فہرست دیکھ لیں معدودے چند علمی یا سماجی حلقوں کے کوئی اس دن کے لئے خاص پروگرام نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک کا ”آزاد میڈیا“ جو 24 / 7 آپ کو باخبر رکھتا ہے وہ چند سیکنڈ کے کلپ چلانے کی بھی زحمت نہیں کرے گا۔ سارا دن ڈارمے، فلمیں اور ٹاک شوز میں کہیں آپ کو آج کے دن ڈاکٹر عبد السلام کا ذکر نہیں ملے گا۔ مارننگ شوز میں ہر روز کوئی نہ کوئی دن منایا جاتا ہے مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، فیشن ڈے، ویڈنگ ڈے وغیرہ وغیرہ لیکن ہمارے ملک کے ان ”مایہ ناز“ سپوتوں کے پاس ”عبد السلام ڈے“ منانے کے لئے نہ وقت ہے اور نہ سوچ۔ آپ کو ٹی وی میں نیلسن منڈیلا سے لے کر نیوٹن تک سب لوگوں کو ذکر ہوتا ملے گا لیکن اگر نہیں ملے گا تو ڈاکٹر عبد السلام کا نہیں ملے گا۔

ہم تیسری دنیا کے اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ جہالت کی زیادتی اور علم کی کمی ہے۔ ہم باقی دنیا سے سینکڑوں سال دور ہیں۔ ہم کوئی ایجاد کرنے سے تاحال قاصر ہیں۔ ایسے میں ہمارے ملک کی اولین ترجیح علم، ٹیکنالوجی اور سائنس کا فروغ ہونا چاہیے۔ لیکن ہم علم اور علمی لوگوں سے اپنے آپ کو دوور رکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے حکومت میں آکر علم کے فروغ کی بات بھی کی تھی لیکن ہم علم میں کبھی ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہم علمی میدان میں اپنے ہیروز کا ذکر نہ کریں۔ ہم آئیندہ نسلوں کے سامنے جب تک علمی میدان میں کارنامے کرنے والوں کا تذکرہ نہیں کریں گے۔

میرے پیارے پاکستانیو! چھوڑ دو اس بات کو کہ ڈاکٹر عبدالسلام کا مذہب اور عقیدہ کیا تھا؟ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟ وہ پاکستانی اور انسان تھا۔ وہ علم کی شمع روشن کرنے والا مجاہد تھا۔ وہ ساری دنیا میں سائنس کے میدانوں میں پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے والا تھا۔ وہ پاکستان کا ہیرو تھا۔ وہ پاکستان کا سپوت تھا۔ وہ نابغہ روزگار تھا۔ جب ہم نیوٹن، آنسٹائن وغیرہ کے مذہب سے اختلاف کے باوجود ان کا نام لے سکتے ہیں۔ ان کے نام کے سکول، کالج بنا سکتے ہیں ان کی تصویریں لگا سکتے ہیں تو پھر پہلے پاکستانی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام کے ساتھ کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟

ہم ڈاکٹر عبد السلام کو گالیاں دیں یا پھر ان کے کارناموں سے سبق سیکھیں یہ ہم پر منحصر ہے۔ ایک قوم جس شعبہ میں ترقی کرنا چاہتی ہے یا اگلی نسل کو جس راستہ پر گامزن رکھنا چاہتی ہے وہ اس راہ کے پیش رو ہیروز کا ذکر زبانِ خلق پر رکھتی ہے۔ وہ ان ہیروز کو یاد رکھتی ہے۔ ہیروز کو یاد رکھنے کا ایک طریق ان کے نام کا دن منانا ہے۔ جو قومیں اپنے ہیروز کو بھلا دیتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ دنیا تو ڈاکٹر عبد السلام کو یاد رکھے ہوئے ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام بھی اپنے اس گم گشتہ ”ہیرو کو یاد رکھیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).