سیاسی می ٹو


جس طرح می ٹو کو استعمال کرتے ہوئے اپنی جنسی ہراسانی کی کہانی سنانا ایک ٹرینڈ بن گیا ہے اسی طرح پاکستان کی سیاست میں بھی ایک می ٹو کا ہیش ٹیگ چل رہا ہے اور ہر سیاست دان یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ ماضی بعید یا ماضی قریب میں اس کے ساتھ بھی سیاسی ہراسانی ہو چکی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ساتھ مسلسل سیاسی ہراسانی ہو رہی ہے۔

جو بات خواتین کی می ٹو تحریک میں دیکھنے کو ملتی ہے وہی بات پاکستان کی سیاسی می ٹو تحریک میں بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر جہاں سیاسی ہراسانی کے شکار اپنا مسئلہ بیان کر رہے ہیں وہیں بہت سی فرضی سیاسی ہراسانی کی کہانیاں بھی چل رہی ہیں یعنی بعض موقع پرست محض کمپنی کی مشہوری کے لیے واویلا مچا رہے ہیں جن کی وجہ سے اصل مسئلہ پس پشت پڑتا جا رہا ہے اور معاملے کی سنجیدگی متاثر ہو رہی ہے۔

دوسری طرف سیاسی ہراسانی کے شکار متاثرین کے حق میں بات ہونے کی بجائے معاشرے کے بالادست طبقے کے خلاف زیادہ بات ہو رہی ہے اور دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا سیاسی ہراسانی میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کا فائدہ تو شاید ہی کچھ ہو مگر نقصان ضرور ہو رہا ہے۔ سب سے واضح نقصان تو یہ نظر آتا ہے کہ متاثرین مزید ہراساں ہوتے جا رہے ہیں اور بالادست طبقہ اپنے آپ کو زیادہ طاقت ور محسوس کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بالادست طبقے کو یہ احساس بھی ہوتا جا رہا ہے کہ حالات کے سدھار کے لیے اس سے بھیک مانگی جا رہی ہے اس لیے جو بھی کرنا ہے اسی نے کرنا ہے۔ متاثرین یا تو مقابلے کے قابل ہی نہیں ہیں یا پھر اتنے متحد نہیں کہ مل جل کر سیاسی ہراسانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے کچھ بہتری لا سکیں۔ اس صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرین کی طرف سے بولنا اس وقت ”انٹلکچول“ پن کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جس کے منہ میں جو بھی الفاظ آتے ہیں وہ بالادست طبقے کے خلاف ڈٹ کر بولتا ہے اور متاثرہ طبقہ خوش ہو جاتا ہے کہ اس کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ بالادست طبقے کی طرف سے آواز اٹھانے والوں کو اچھے بچوں میں شامل نہیں سمجھا جاتا۔ اسی وجہ سے متاثرہ طبقے کے نزدیک بھی بالادست طبقے کا نکتہ نظر کبھی درست نہیں سمجھا جاتا۔ باہمی بداعتمادی کی وجہ سے جب بالادست طبقے کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ اور بڑھ کر وار کرنا چاہتا ہے۔

متاثرہ طبقے کو دراصل اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اور خاص طور پر اس وقت ضرور کرنی چاہیے جب وہ طاقتور عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ بالادست کو اپنا رویہ بدلنے کے لیے کہنا اچھی بات ہے پر اس سے زیادہ ضروری کام متاثرہ طبقے کو یہ احساس دلانا ہے کہ بالادست کے خلاف کھڑا ہونا بالادست کے حق میں بھی بہتر ہوتا ہے اور وہ ظلم و جبر کرنے سے بچ جاتا ہے۔ ظالم چاہے جتنا بھی اپنا ہو اور مظلوم چاپے جتنا بھی پرایا ہو، ظلم ہونے سے بچانا زیادہ ضروری ہے اور اس کے لیے ہمیشہ مظلوم طبقے کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ متاثرہ طبقے کے متحد اور مؤثر ہوئے بغیر بالادست کا زیردست ہونا ممکن نہیں۔

اس میں ایک اور بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ مسائل کا حل بیان نہیں کیا جا رہا مگر جس انداز سے حل بیان کیا جا رہا ہے اس سے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اپنی قابلیت جتانا مقصود ہے۔ جب بھی کبھی مثبت تبدیلی لانی ہوتی ہے تو سب سے زیادہ تکلیف تبدیلی لانے والوں کو برداشت کرنا پڑتی ہے چاہے وہ بدزبانی کا سامنا کرنا ہو چاہے ان تھک محنت۔ ہر لحاظ سے مستقل مزاجی کے ساتھ قربانیاں دنیا پڑتی ہیں۔ مذہبی تبدیلی ہو یا دنیاوی، اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ قائد اعظم، نیلسن منڈیلا، اور سب سے بڑی ہستی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان تمام شخصیات نے بے تحاشا قربانیاں دیں جن کا ثمر اگلی نسلیں کھا رہی ہیں۔

بات کو مکمل کرتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مثبت تبدیلی لانے کے لیے خود کو مضبوط کرنا ہوگا اور ہر قسم کے نامساعد حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہوئے متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔ رکاوٹوں اور مشکلات پر بات کرنا ایک الگ بات ہے مگر ہر وقت غیر موافق حالات پر رونا ان مسائل کا حل نہیں بلکہ مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرنا ہوگا۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).