اکنامک ٹائمز برطانیہ اور سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید مختار


اقتصادیات اور کاروبار کی خبریں دینے والے مؤقر برطانوی روزنامہ اکنامک ٹائمز نے کلکتہ انڈیا میں مقیم اپنے سینئیر اسسٹنٹ ایڈیٹر دیپجانجن رائے چوہدری (Dipanjan Roy Chaudhury) کی خیالی سٹوری کی بنیاد پر سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار پر شدید اور بے بنیاد تنقید کی ہے۔ رائے چوہدری نے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش کے 30 دسمبر 2018 ء کے الیکشن سے پہلے آئی ایس آئی چیف جنرل نوید مختار اپنے بنگالی ایجینٹوں کی مدد سے حسینہ واجد کو فیملی سمیت قتل کرنے کی کوشش میں ناکام ہو گئے۔

اس منصوبہ میں صرف حسینہ واجد کو فیملی سمیت قتل کرنا ہی شامل نہیں تھا بلکہ اس میں عوامی لیگ کے مرکزی عہدے داروں کو بھی ٹھکانے لگایا جانا تھا تاکہ مسلسل تین ادوار سے الیکشن جیتنے والی انڈیا نواز عوامی لیگ کی جگہ پاکستان نواز بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے برسراقتدار آنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔

رائے چوہدری کے مطابق اس منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے یونانی ملکیت کے ایک بحری جہاز پر کلاشنکوف، کاربین اور گرنیڈ کی بھاری کھیپ بنگلہ دیش داخل کی جانی تھی جسے آئی ایس آئی کے بنگالی ایجینٹوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ یہ اسلحہ بنگلہ دیش نیوی اور کوسٹل گارڈ عملہ کے کچھ لوگوں کے ذریعہ آئی ایس آئی ایجینٹوں کے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچایا جانا تھا۔ رائے چوہدری کے اس خیالی منصوبہ میں سب سے پہلے اس یونانی ملکیت بحری جہاز سے ڈھاکہ میں ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کیا جانا تھا جب بنگالی وزیر اعظم اور دوسری سینئیر قیادت جائے حادثہ پر پہنچنے کے لئے نکلتی تو راستے میں پہلے سے گھات لگائے آئی ایس آئی کے مسلح کمانڈوز انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے جبکہ انہی کمانڈوز کا دوسرا گروپ حسینہ واجد کی فیملی کو ان کے گھر میں گھس کر مار دیتا۔

رائے چوہدری نے لکھا ہے کہ اس سازش کے بنیادی کرداروں میں جنرل نوید مختار کے علاوہ سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمن بھی شامل تھے جو لندن میں جلاوطنی کی زندگی کاٹ رہے ہیں اور خالدہ ضیاء بھی کرپشن کے الزامات کے تحت پچھلے کئی سالوں سے جیل میں نظر بند ہیں۔ رائے چوہدری کے مطابق اس سازش کو عملی جامہ پہنچانے کے لئے پیسہ کی ترسیل دبئی میں آئی ایس آئی کے ایجنٹوں نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن اور طارق رحمن کے ذریعہ کی۔

اس طرح کے بے سروپا الزامات حسینہ واجد حکومت میں 2004 ء میں بھی لگائے گئے تھے کہ اسلحہ سے لدا ایک چھوٹا بحری جہاز بنگالی حدود میں داخلہ سے پہلے ہی سمندر میں ڈوب گیا جو اگر بنگلہ دیش پہنچ جاتا تو اس سے عوامی لیگ کی قیادت کو موت کے گھاٹ اتار کر بنگلہ دیش پارٹی کے برسراقتدار لانے کی راہ ہموار کی جاتی۔ حسینہ واجد پر اس سے قبل ایک حملہ ہو چکا ہے جس میں وہ محفوظ رہی تھی مگر عوامی لیگ کے کئی سینئیر راہنما اس حملہ کے نتیجہ میں ہلاک و زخمی ہو گئے تھے۔ رائے چوہدری کچھ ہفتے پہلے بھی ایک ایسی ہی سٹوری دے چکا ہے کہ آئی ایس آئی اپنے دبئی میں مقیم ایجنٹوں کے ڈریعہ طارق رحمن کو مرکز بنا کر بنگلہ دیش میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد پر مشتمل حکومت کے قیام کے لئے کوشیں کر رہی ہیں۔

رائے چوہدری اکنامک ٹائمز میں سینئیر اسسٹنٹ ایڈیٹر کی ذمہ داری انجام دے رہا ہے اور خارجہ و سٹریٹیجک معاملات پر لکھتا ہے۔ اس پہلے وہ ایسپن انسٹی ٹیوٹ انڈیا (Aspen Institute India) میں بطور پروگرام ڈائریکٹر کی ذمہ داری پر کام کر چکا ہے جبکہ وہ انڈیا ٹوڈے گروپ کے ذیلی ادارہ میل ٹوڈے (Mail Today) جیسے سنسنی خیز اخبار کی ٹیبل سٹوریاں بنانے میں مشہوری رکھتا تھا۔ ان اداروں کے علاوہ وہ کویت نیوز ایجینسی، یونائیٹڈ انڈیا نیوز ایجینسی (UNI) میں بھی کام کر چکا ہے۔

یہ تمام ادارے مستند خبریں دینے کی بجائے ٹیبل سٹوری بنانے میں مشہور ہیں اور اپنی سنسنی خیز جھوٹی خبروں کے ذریعہ میڈیا اور عوم میں ہیجان خیزی پھیلانے کے لئے مشہور ہیں۔ رائے چوہدری آل انڈیا ریڈیو کے لئے انڈین خارجہ پالیسی پر تبصرہ نگاری بھی کرتا ہے۔ سنسنی خیزی، خیالی کہانی اور جعلی خبروں کی تربیت کے لئے رائے چوہدری کو متعدد گول میز کانفرنسوں، تربیتی کورسوں اور سیمیناروں میں شرکت کر چکا ہے جس میں انڈین وزارت خارجہ کی طرف سے 2017 ء میں منعقد کردہ پہلی انڈیا۔ روس میڈیا گول میز کانفرنس، 2015 ء میں امریکی محکمہ خارجہ کی منعقد کردہ بین الاقوامی لیڈرشپ وزیٹر پروگرام، 2008 ء میں فو ہسانگ کانگ کالج (Fu Hsing Kang College) جمہوریہ چین تائیوان میں منعقدہ نیشنل ڈویلپمنٹ کورس، اور 2005 ء میں انسٹی ٹیوٹ آف جرنلزم ہیمبرگ جرمنی میں منعقدہ موسم گرما کورس بھی شامل ہیں۔ رائے چوہدری نے ایشین کالج آف جرنلزم چنائے۔ انڈیا سے جرنلزم (نیو میڈیا) میں پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ جبکہ جادیوپور یونیورسٹی (Jadavpur University) کلکتہ سے بی اے آنرز پولیٹیکل سائینس اور ایم اے بین الاقوامی تعلقات عامہ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ رائے چوہدری نے شمال مشرقی انڈیا، قازقستان اور بنگلہ دیش پر کئی کتابیں بھی لکھی ہوئی ہیں۔

رائے چوہدری کے اس سارے تعارف کے بعد یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ وہ کس طرح کے ماحول اور مائنڈ سیٹ میں پروان چڑھا ہے۔ اس کی ساری پروفیشنل زندگی تحقیقاتی سٹوری کی بجائے سنسنی خیزی، خیالی اور سازشی کہانیاں بنانے والے اداروں میں گزری ہے۔ ایسے صحافی عموماً انڈیا حکومت اور انڈین ایجینسی راء پالا کرتی ہے اور ان کو دوسرے ممالک کے اخبارات اور دوسرے میڈیا ذرائع میں نوکریاں دلوا کر اپنی مرضی کا کام لیتی ہے۔ اس لیول کے ٹیبل سٹوری صحافی کو انڈین خفیہ ایجینسی مواد فراہم کرنے کے علاوہ بنی بنائی خبریں بھی دیتی ہے تاکہ وہ انہیں اپنے نام سے چھپوا کر انڈین خفیہ ایجینسی راء کے ایجینڈہ کے مطابق پراپیگینڈہ کا حصہ بنیں۔

رائے چوہدری کی لکھی کتابوں میں بھی سارا مواد انڈین خفیہ ایجینسی راء کا فراہم کیا ہوا یے جبکہ ٹائٹل پر نام رائے کا لکھ کر اسے دانشور بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسے صحافیوں کی مدد سے ہی انڈین محکمک خارجہ پوری دنیا میں پراپیگینڈہ کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا ہے۔ انڈین پراپیگینڈہ کی بنیاد میں ایسی ہی ٹیبل خبروں کے ریفرینس دیے جاتے ہیں۔

رائے چوہدری کی اس کہانی میں کئی بنیادی نقائص ہیں جس میں سب سے بڑی خرابی تو یہ ہے جنرل (ر) نوید مختار 24 اکتوبر 2018 ء میں ریٹائرمنٹ پر چلے گئے تھے اور ان کی جگہ 25 اکتوبر سے لیفٹیننٹ جنرل حافظ سید عاصم منیر احمد شاہ بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں جو اس سے پہلے بطور چیف آف ملٹری انٹیلی جینس اور شمالی علاقوں میں ہونے والے اپریشن چیف کے طور پر ذمہ داری انجام دے چکے ہیں۔

رائے چوہدری نے اپنی خیالی کہانی میں یہ بھی نہیں بتایا کہ جس یونانی بحری جہاز سے کلاشنکوف، کاربین اور دستی بموں جیسا خطرناک اسلحہ پکڑا گیا ہے، وہ کب اور کہاں لنگر انداز ہوا، اس اسلحہ کی تعداد کیا تھی، اس میں کتنے لوگ پکڑے گئے، بنگلہ نیوی اور کوسٹل گارڈ کے جو لوگ اس میں شامل تھے وہ کون تھے اور کتنے تھے، ان سب پکڑے جانے والوں کے خلاف کیا قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ کیا ان وردی والے بنگالی فورسز کے ملازمین کے علاوہ سویلین کون تھے، وہ کون کمانڈوز تھے جنہوں نے حسینہ واجد، اس کی فیملی اور عوامی لیگ کے راہنماؤں پر حملہ کرنا تھا۔ یہ بہت بڑی پیشہ وارانہ بددیانتی ہے کہ صرف یہ لکھ دیا جائے کہ بیرون ملک مقیم کچھ لوگ بنگلہ دیش میں اپنے ایجینٹوں کے ذریعہ حکومتی راہنماؤں کو قتل کروا کر حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔

رائے چوہدری نے یہ بھی لکھا ہے کہ طارق رحمن کی قیادت میں بننے والے اس منصوبہ میں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے راہنما شامل نہیں تھے اور انہیں اس طرح کے کسی منصوبہ کا علم نہیں تھا۔ رائے چوہدری نے اس منصوبہ میں جماعت اسلامی کی شمولیت یا غیر شمولیت بارے معلومات نہ ہونے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اس طرح کی بے سروپا باتیں لکھ کر رائے چوہدری نے انڈین محکمہ خارجہ اور خفیہ ایجینسی راء کی نمک حلالی کا حق ضرور ادا کر دیا ہے مگر وہ حقائق پر مبنی اصلی نیوز کا تاثر چھوڑنے میں مکمل ناکام ہو گیا ہے۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس کہانی کے پیچھے رائے چوہدری اور راء کے لاشعور میں 1970 ء کی دہائی میں عوامی لیگ کے سابق چئیرمین اور پہلے بنگالی وزیر اعظم مجیب الرحمن اور ساری فیملی کا قتل کا واقعہ تھا جس میں حسینہ واجد اس لئے بچ گئی تھی کہ وہ ان دنوں لندن مقیم تھی۔ اس سے پہلے بھی انڈین میڈیا اور کئی ممالک کے میڈیا میں تعنیات انڈین صحافی یہ پراپیگینڈہ کرتے رہے ہیں کہ پاکستانی آئی ایس آئی کافی عرصہ سے انڈیا نواز عوامی لیگ کو سیاسی میدان سے باہر کر کے پاکستان نواز بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد پر مشتمل حکومت بنانے کے لئے کوشاں ہے۔

انڈین میڈیا کے مطابق آئی ایس آئی کی اس جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ جب بنگلہ دیش پر پاکستان نواز حکومت قائم ہو جائے گی تو مشرقی انڈیا کے علاقوں بنگال، کلتہ سمیت آسام، ناگالینڈ میں چل رہی علیحدگی کی تحریکوں کو تقویت دی جا سکتی ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق اگر آئی ایس آئی مشرقی و شمالی انڈین علاقوں میں علیحدگی کی تحریکوں کو تقویت دے لے تو انڈیا کے مغرب اور شمال میں پنجاب و کشمیر کی علیحدگی کی تحریکوں کو تقویت دے کر نہ صرف انڈیا کو کچھ سالوں میں توڑا جا سکتا ہے بلکہ فوری نتائج کے تحت انڈیا کو شدید دباؤ میں لا کر آبی جارحیت اور پاکستان و افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بھی باز رکھا جا سکتا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اتنی وسیع اور اتنی گھمبیر سازش کر رچنے کے لئے درکار وسائل اور افرادی قوت کے بارے انڈین میڈیا اور خفیہ ایجینسی راء کے دماغوں پر تالے لگ جاتے ہیں۔ وہ پراپیگینڈہ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچ پاتے کہ ایسی بے سروپا، لایعنی اور خیالی کہانیوں کے ذریعہ وہ سنسنی خیزی پھیلا کر ہیجان میں مبتلا اپنی حکومت کی خوشنودی تو حاصل کر سکتے ہیں مگر بین الاقوامی معاملات میں دیرپا اثرات کے لئے ٹیبل نیوز سٹوریوں کی بجائے مدلل، جامع اور ٹو دی پوائنٹ خبری تجزیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).