گاندھی جی کی ناکامیاں ہنوز ہندوستان پر طاری ہیں


آج 30 جنوری ہے. ۔گاندھی جی کو قتل ہوئے 71 سال ہو گئے۔ اس قتل سے پہلے دلی میں مسلم کُش فسادات اور قتل و غارت گری کی ایسی آگ بھڑکی ہوئی تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ جنوری کے اوایل میں گاندھی جی ، سہروردی صاحب کے ساتھ کلکتہ اور نواکھالی کے فساد زدہ علاقوں کے دورے کے بعد دلی پہنچے تو سیدھے مسلم قوم پرست تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ آئے۔ اس زمانے میں میں جامعہ میں زیر تعلیم تھا۔ جامعہ میں آس پاس کے دیہاتوں سے فساد زدہ بے گھر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پناہ گزیں تھی۔ گاندھی جی تین گھنٹے سے زیادہ جامعہ میں رہے اور سارے وقت ایک چبوترے پر مسلم پناہ گزینوں کے بیچ بیٹھے رہے اور انہیں تسلی اور دلاسہ دیتے رہے۔ بار بار وہ ان مسلمانون کو دیکھ کر ایک لمبی آہ بھر کر کہتے “بہت برا ہوا, بہت برا ہوا”۔

ان کے چہرے سے کرب عیاں تھا، کہہ رہے تھے کہ میں پاکستان جا کر ان سب بھائیوں کو اپنے ساتھ واپس لاؤں گا جو یہاں سے چلے گئے ہیں۔ جاتے ہوئے کہنے لگے کہ میں فسادات کو رکوانے اور پاکستان کی رکی ہوئی پچپن کروڑ روپے کی رقم ادا کرانے کے لئے مرن برت رکھوں گا۔ چنانچہ اپنے اعلان کے مطابق گاندھی جی نے 13 جنوری کو مرن برت شروع کیا اور کہا کہ وہ اُس وقت تک برت جاری رکھیں گے جب تک فسادات ختم نہیں ہوتے، چاہے اس دوران وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

گاندھی جی کے مرن برت سے پورے ہندوستان میں کھلبی مچ گئی اور گاندھی جی کے برت ختم کرانے کے لئے ہندو، مسلم اور سکھوں کے عمایدین اور سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے جن میں ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندو مہا سبھا کے نمایندے بھی شامل تھے، دلی اعلامیہ کے نام سے ایک پیمان پر دستخط کئے جس میں کہا گیا تھا کہ ہندواور سکھ، مسلمانوں پر حملے نہیں کریں گے اور امن بحال کریں گے۔ گاندھی جی نے ان رہنماوں سے کہا کہ میں آپ کو اس پیمان کا پابند کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف فسادات صرف دلی ہی میں بند نہیں ہوں گے بلکہ اس پیمان کا اطلاق پورے ہندوستان پر ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ بند ہوگا۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ اس پیمان پر گاندھی جی کے مرن برت کے خاتمہ کے بارہ روز بعد آر ایس ایس کے ایک کارکن نتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ اب سے چار سال پہلے جب آر ایس ایس کی ذیلی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی نریندر مودی کی قیادت میں بر سر اقتدار آئی تو کھلم کھلا اس پیمان کی خلاف ورزی کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ہندوستان میں آباد اٹھارہ کروڑ سے زیادہ مسلمان عذاب کی زندگی گذار رہے ہیں۔ گائے کے ساتھ چلتے ہیں تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انہیں غیر ملکی حملہ آور قرار دیا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو مت اختیار کرنا پڑے گا ورنہ انہیں اس سر زمین کو خیر باد کہنا ہوگا جس پر ان کے آباو اجداد نے صدیاں گذاری ہیں اور جس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے انہوں نے خون پسینہ کے قربانی دی ہے۔

دلی اعلامیہ کے فورا بعد 30 جنوری کو گاندھی جی کا قتل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ان کا عدم تشدد (اہنسا) کا نظریہ جس کا وہ ساری عمر پرچار کرتے رہے یکسر ناکام رہا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے کسی بڑے خون خرابے کے بغیر آزادی حاصل کی ہے اور اس کا سہرا گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کے سر ہے، لیکن بہت سے مبصرین کی رائے میں ہندوستان کی آزادی کے حصول میں کئی اور محرکات شامل تھے۔ اول تو دوسری عالم گیر جنگ کے بعد برطانیہ کی معیشت اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ اسے اتنی بڑی نوآبادی کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔ دوم امریکا اور یورپ کا برطانیہ پر شدید سیاسی دباو تھا کہ وہ ہندوستان اور اپنی دوسری نو آبادیوں کو آزاد ی دے۔ سوم ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشمکش اور کشیدگی اس سطح پر پہنچ گئی تھی کہ برطانوی راج کو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوگیا تھا۔

چوتھی وجہ سب سے اہم تھی جس سے برطانوی راج ہل کر رہ گیا تھا اور وہ تھی فروری سن چھیالیس میں ہندوستان کی بحریہ میں بغاوت جو بمبئی سے شروع ہوئی اور اس نے کراچی، کلکتہ اور دوسری بندگاہوں کو بھی اپنی لپیٹ لے لیا تھا۔ بحری فوج کے 78 جہازوں کے بیس ہزار بحری فوجیوں نے اس بغاوت میں حصہ لیا تھا۔ اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے آخر کار برطانوی راج کو ہندوستان کے سیاست دانوں کی مدد حاصل کرنی پڑی۔

اگر ہندوستان کی آزادی گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریے کی مرہون منت ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آزادی کے ساتھ پورے بر صغیر میں جو ہولناک فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی آگ بھڑکی جس میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ، پچاس لاکھ سے زیادہ افراد جس خونریزی کے عالم میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہے اور ایسی بھیانک اقتصادی اتھل پتھل مچی کہ جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی، اسے تو کسی صورت میں عدم تشدد کی کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سبھاش چندر بوس یا مولانا عبید اللہ سندھی کی قیادت میں آزادی کی مسلح جنگ ہوتی تو ممکن ہے کہ دس لاکھ لوگ جاں بحق ہوتے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر غارت گری نہیں ہوتی۔ آزادی کی تحریک کے دوران اور اس کے بعد پورے بر صغیر میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت گری کا جو دور دورہ رہا وہ اس دعوی کو باطل ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریئے کی مرہون منت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہندوسان میں مسلمانوں کے سنگین حالات گاندھی جی کی ناکامیابیوں کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani