سفید خون والی حکمران مخلوق کے نام


\"javed-iqbal-malik\"

کراچی شہر کو جلتے ہوئے تو تقریبا 30 سال ہو گئے ۔ مگر آگ ہے کہ ٹھنڈی ہی نہیں ہو پا رہی۔ ایسے لگتا ہے اس آدم خور آگ کو ہر وقت کسی انسانی جان کی بھینٹ درکار ہوتی ہے۔شاید اس شہر کی قسمت ہی ایسی ہے کہ امن اب شہر سے ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک عام شہری کے پاس تو بس لے دے کہ ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ایک جنازے کو کاندھا دے کر آئے تو دوسرے جنازے میں شرکت کی تیاری کرنے لگتا ہے ۔ ایک لاش پر بہنے والے آنسو ابھی خشک نہیں ہوئے ہوتے کہ ایک اور لاشہ سامنے آ جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن کی سکرین پر بریکنگ نیوز نہ آئے تو بے چینی سے ہونے لگتی ہے۔ ایسے لگتا ہے ہم اب اذیت پسند ہو چکے ہیں۔

اتنے سال ہوئے ایک خونی کھیل کو کھیلا جا رہا ہے تو آخر کوئی تو حل ہو گا نہ اس مسئلے کا ؟ایک ٹی وی اینکر فرما رہے تھے 30 سال ہو گئے اس کھیل کو کہ جاری ہے نہ وزیرِاعلی استعفی دیتے ہیں نہ وزیرِ داخلہ گھر جاتے ہیں۔ تو مجھے خیال آیا کہ ارے مجھے تو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ اس شہر میں یہ ہستیاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ ارے بھائی ان مقدس ہستیوں سے ایسی بدتمیزی کیوں کہ وہ گھر جائیں یا استعفی دیں۔ جب ہم سب کو کوئی عہدہ ملتا ہے کبھی کسی نے بھی جشن منانے سے پہلے یہ سوچا کہ اُف کس قدر بڑی ذمہ داری کو بوجھ میرے کاندھوں پر آنے والا ہے اور کیا میں یہ اُٹھا بھی سکوں گا یہ نہیں۔ بس جیسے ہی خبر آتی ہے پروموشن ہو گئی ، وزارت مل گئی موصوف خود تو کیا گھر کے سارے افراد ، محلے والے ، برادری والے ، شہر والے ، پارٹی والے سب کے سب خوشی میں بھنگڑے ڈال رہے ہوتے ہیں۔ جب عہدہ ذمہ داری کے بجائے دکھاوے کا ذریعہ ہو ، معاشرے میں مقام متعین کرتا ہو تو جناب کون استعفی دے گا۔

شاید آپ کو کچھ غلط فہمی ہو گی ہے ۔ آپ دو مختلف سیاروں کی مخلوق کی بات کر رہے ہیں۔ وہ جو ہر حادثے کے بعد خود کو ذمہ دار سمجھ کر استعفی دیتے ہیں وہ اس دنیا کی مخلوق ہی نہیں ہوتے اور تو اور اُن کا خون بھی سفید نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کیوں کے سفید خون رکھنے والی مخلوق پائی جاتی ہے تو استعفے کا کوئی رواج ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری روایات کے منافی عمل سمجھا جاتا ہے۔اور ہماری تو ایک شاندار تاریخ ہے جس پر ہم فخر کر سکتے تو ہمیں کیا پڑی ہے دوسروں سے مرعوب ہوتے پھریں۔ ہم تو بہترین ہیں اوردوسروں نے تو ایک دن خود ہی مٹ جانا ہے۔ اس لیے ہمیں کچھ کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے ۔ اللہ کے تمام انعام و اکرام صرف ہمارے لیے مختص ہیں (جیسے سزا و جزا کے سارے احکامات تو کسی دوسری مخلوق کے لیے ہیں )۔

بھیا اب یہ ہمارے سفید خونی رشتہ داری کا ہی کمال ہے کہ اب تک جو کچھ بھی ہو چکا یا جو ہونے جا رہا ہے کسی کی مجال نہیں کے ہماری برادری کے کسی بندے کو کوئی مائی کا لال ہاتھ بھی لگا سکے۔ پیشہ چاہے کوئی بھی اگر خونی رشتہ داری ہے تو بس ہے۔ یعنی ساری خدائی ایک طرف اور جورو کا بھائی ایک طرف کے مصداق ہمارے ہاں بھی اس چیز کو سب سے افضل سمجھا جاتا ہے۔ قائدِاعظم سے لے کر اب تک ہم اسی سنہری اُصول پر کاربند ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے کتنے کٹھن دور آئے، حکومتیں گئیں ، ملک دو لخت ہوا، مارشل لاء لگے، جنگیں ہوئیں، ایک ہی دن میں ہم نے ہزاروں لاشے اُٹھائے، کون سا طعنہ اور گالی ہوگی جو ہم کو بیرونی ممالک نے نہ دی ہوگی۔ مگر مجال ہے ہم نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا ہو۔ ہم نے اپنی اس سفید خونی برادری کو ہر چیز سے مقدم جانا۔ ہم نے بھائیوں کو سرُخ رو کروانے کے لیے ملک دولخت کر دیا۔ ہم نے قائد کے فرمان بھلا دیے۔ ہم نے آج تک کسی بھی کمیشن کی رپورٹ کو اسی لیے منظرِ عام پر نہیں آنے دیا نہ کسی مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے دیا۔ ہم نے کوشش کی ہر جگہ ہمارا اپنا خون اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تبھی تو اس ملک میں سفید خون والے امن و سکون سے رہ سکیں گے۔ ہم نے ہر سچ کے چراغ کو گل کرکے اُس جھوٹ کے دیے کو جلانے کی کوشش کی جس سے ہماری 2 فیصد برادری کا سر اُونچا ہو سکے جس کے ساتھ ہمارے باقی 96 فیصد لوگ جڑے ہیں۔

کچھ لوگ سمجھ رہے ہوں گے ہم اپنے خون کی اتنی تعریفیں کر رہے ہیں تو دوسروں میں ضروری تو نہیں کوئی عیب ہو۔ تو میں اس نئی نسل کے کچھ گوش گزار کر دوں کہ یہ آپ کی کم علمی ہے ورنہ خون کی سرُخی ایک لا علاج مرض ہے ۔ یہ ایک ایسی موذی مرض ہے کہ ایک بار کسی کو لگ جائے بندہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ سرخ خون والی مخلوق ویسے تو اب بہت کم ہی رہ گئی ہے مگر جتنی بھی ہے کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ ایک تو اس خون میں ہر چیز کو غلط اور صحیح میں تقسیم کرنے کا بہت رجحان ہے اور یہی سے سب مسئلے شروع ہوتےہیں۔ پھر ہر مسئلے میں ان کو غیرت و حمیت کا دورہ پڑ جاتا ہے یہ ایک دوسری بڑی مصیبت ہے۔ اور میں کیا کیا گنواوں سچ، ایمان ، نیکی ، رزقِ حلال ، ملک کی حفاظت ، بھلائی کا جنون ، قربانی اور اس جیسی ان گنت مہلک چیزوں سے لگا و کی بنیادی وجہ خون کی سُرخی ہے۔ اس لیے ہم نے کوشش کرنی ہے کہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو یکجا رکھیں اور ان کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہر ممکنہ مندرجہ بالا بیماریوں سے دور رہیں۔ ہمیں یقین ہے اگر ہم اس پر کاربند رہے تو باقی ماندہ رہے سہے لوگ بھی ہماری ترقی دیکھ کر جلد یا بدیر ہمارے سفید خونی بھائی چارے میں شامل ہو جائیں گے۔

جاوید اقبال ملک
Latest posts by جاوید اقبال ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جاوید اقبال ملک

جاوید اقبال ملک صاحب انڈس یونیورسٹی کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ کامرس کے سربراہ ہیں۔

javed-iqbal-malik has 4 posts and counting.See all posts by javed-iqbal-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments