’لوگ صحافیوں کو بااثر سمجھتے ہیں، جبکہ یہ بے یار و مددگار ہیں‘


پاکستان میڈیا

پاکستان میں میڈیا انڈسٹری ترقی پا رہی ہے مگر کارکن صحافیوں کو تنخواہیں اد نہیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن بعض مبصرین ان مالی مشکلات کی ذمی داری حکومت کی پیلیسیوں پہر عادئد کرتے ہیں۔

پاکستان کے معروف میڈیا گروپ ڈان کی جانب سے چالیس فیصد تنخواہوں میں کٹوتی کے بعد اب میڈیا انڈسٹری کی مالی ساکھ اور اس کے مستقبل کے بارے میں خداشات بڑھ رہے ہیں۔ اس دوران ایک اور بڑے میڈیا گروپ، جیو میں تنخواہیں کئی کئی مہینوں کی تاخیر سے ادا کی جا رہی ہیں۔

دیگر ٹیلیویژن چینیلوں کے حالات اس سے بھی بد تر ہیں۔ دو چینلز نیو ٹی وی اور وقت ٹی وی، حال ہی میں اپنی نشریات بند کر چکے ہیں۔ کئی اداروں سے صحافیوں کو ملازمت سے بیدخل کردیا گیا ہے یا وہاں ملازمین تنخواہ کی امید پر کام کر رہے ہیں۔ اس دوران چند نامور صحافیوں نے بڑے چینیلوں سے علحیدگی اختیار کر لی ہے۔ علحیدہ ہونے والے صحافیوں کے بارے میں چند مبصرین نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ انھیں دباؤ کی وجہ سے ملازمت چھوڑنا پڑی۔

اور ان علحیدہ ہونے والے سینکڑوں میں سے کچھ نے اپنے ٹاک شوز کا سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر آغاز کیا ہے جس سے تاحال زیادہ آمدنی کا امکان نہیں ہے۔ لیکن اب ایسے صحافیوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے جنھیں کچھ عرصہ پہلے کے اچھے حالات میں تنخواہیں تو مل رہی تھیں، لیکن اب انھیں یا تو تنخواہیں مل نہیں رہیں یا تاخیر سے مل رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا پاکستان میں میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہے؟

پاکستان میں تمام میڈیا کی نگرانی کے لیے ایک نیا ادارہ

’اخبار کو ضرورت نہیں لہذا کل سے مت آئیں’

پاکستان میں صحافیوں کے ایک ایسا بہت بڑا طبقہ ہے جو یا تو بہت معمولی سے مشاہیرے پر کام کرتے رہے ہیں یا بغیر کسی معاوضے کے۔ اب سے 20 برس پہلے لاہور کے ایک صحافی محمد ماجد نے پاکستانی صحافیوں کی پہلی ڈائریکٹری مرتب کی تھی۔ جس میں ملک بھر کے نامہ نگاروں کو ملا کر صحافیوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ تھی۔

پاکستان میڈیا

سابق صدر جنرپ پرویز کے دورِ اقتدار میں الیکٹرانک میڈیا کو بے انتے ترقی ملی۔

میڈیا انڈسٹری کا اتار چڑھاؤ:

جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں میڈیا ‘ایکسپلوژن’ ہوا اور صحافیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس ہزاروں کی تعداد میں اکثریت ایسے صحافیوں کی ہے جنھیں باقاعدہ مشاہیرہ نہیں ملتا ہے۔

صحافیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز سے وابسطہ پاکستان کے صحافی اقبال خٹک کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اس وقت ایک منظم طریقے سے ڈان اور جنگ جیسے آزاد میڈیا گروپس یا جو بھی ریاستی طاقت کے خلاف بات کرتا ہے، اُس کو کچلا جا رہا ہے۔

‘اور اس سلسلے میں آزادی کو کچلنے کا نیا طریقہ ان اداروں کا مالیاتی طور پرگلا گھونٹنا ہے۔’

اقبال خٹک کے مطابق اب اس ‘اقتصادی ناکہ بندی’ کی وجہ سے اسٹیبلشمینٹ کو میڈیا سے مطلوبہ نتائج ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق میڈیا انڈسٹری کیلئے جسمانی دھمکیوں، جسمانی نقصان کے خطرے، ہراساں کرنے، اغواہ اور قتل سے بھی زیادہ خطرناک ‘اقتصادی دباؤ’ ثابت ہو رہا ہے۔

رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے اقبال خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کی ترقی کے تمام امکانات موجود ہیں۔ میڈیا کی آمدن بھی بڑھی ہے، اشتہارات کی تعداد اور اس سے ہونے والی آمدن میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن میڈیا انڈسٹری کے موجودہ زوال کا تعلقات مارکیٹ کے حالات سے براہ راست نہیں ہے۔

جن صحافیوں نے گزشتہ دہائی سے قبل کے میڈیا ‘ایکسپلوژن’ کے زمانے میں اچھے حالات دیکھتے ہوئے صحافت کے پیشے میں آئے تھے اب وہ کافی زیادہ مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔

پاکستان میڈیا

میڈیا مالکان کارکن صحافیوں کو تنخواہیں تاخر سے اد کر رہے ہیں۔

صحافیوں کی مالی زبوں حالی:

ایسے ہی چند صحافیوں نے اپنے مخدوش مالیاتی مستقبل کو دیکھتے ہوئے نئے آنے والو کو پیشہ صحافت اختیار کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنے کا مشورہ دیا ہے۔

لاہور کی خاتون صحافی شاہدہ بٹ:

‘میں نے دو ہزار سات میں روزنامہ وقت جوائن کیا ، اور پچھلے ماہ انتظامیہ نے اسے بند کردیا ۔ جب جوائن کیا تب مالک علیم خان تھے جو اس وقت صوبہ پنجاب میں سینئیر منسٹر ہیں ، انہوں نے جنگ گروپ کو بیچ دیا، جنگ گروپ نے اسے قومی اخبار نہ بننے دیا اور ایک طرح سے ڈمی رکھا پھر اچانک تالہ لگا دیا اور (نوکری سے برخاستگی کے) لیٹر گھروں میں ڈاک کے ذریعے بھیج دیے۔ میں اب کچھ نہیں کہہ سکتی کہ میرا پرسان حال کون ہوگا ، ابھی تک کوئی یوٹیلٹی بل ادا نہیں کیا ، کب کون سی لائن کٹ جائے ، بجلی ، گیس کی یا پانی کی، مجھے کہیں سے کوئی بھی آس دکھائی نہیں دیتی، ہمارا خیال تھا کہ ملک میں جس تبدیلی کی بات کی جارہی ہے وہ تبدیلی ہمارے روزگار کا بھی تحفظ دے گی مگر مجھے نہ کسی تنظیم سے امید ہے نہ حکومت کچھ کررہی ہے، بس لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی طرح گمنام ، بیروزگار رہیں گے، کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ میرے پاس کوئی گاڑی نہیں ، پیدل تھی پھر سے پیدل ہوں بلکہ خالی جیب اخراجات کی لمبی فہرست کے ساتھ ۔۔۔ یہ پروفیشن شعبہ خواتین کیلئے بہت اچھا ہے اگر وہ اسے اپنانا چاہیں اور معاشرے میں خواتین سمیت کسی کی بھی نمائندگی اور حقوق کا تحفظ کرسکتی ہیں، لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ خود ان کا اپنا محافظ کوئی نہیں وہ اپنی محافظ خود ہیں۔ اس شعبے میں بس وہی ٹھیک ہے جو مالک کا رشتہ دار یا منظورِ نظر ہے۔’

اسلام آباد کی صحافی سحرش واصف:

‘میں نے سنہ 2010 میں اسلام آباد کے انگلش اخبار ایکسپریس ٹریبیون میں بطور صحافی کام کرنا شروع کیا تھا۔ اُس وقت میڈیا میں عورتیں اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ ہم نے نئے ٹرینڈز سیٹ کیے۔ اپنے اخبار کو نئے سے نئے انداز میں چلانے کی کامیاب کوششیں کیں۔ لیکن آج جو ہو رہا ہے ہم مایوس ہو گئے ہیں۔ اب تو ایسا وقت آگیا ہے کہ پوری کی پوری ٹیم کو کھڑے کھڑے نکال دیا جکاتا اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس تنخواہیں ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ اب تو لگتا ہے کہ صحافت ایک ایسا کام ہے کہ آپ جتنی بھی محنت کریں پھر بھی آخر میں کوئی بھی آپ کا شکریہ ادا نہیں کرتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صحافی بہت بااثر ہوتے ہیں لیکن ہم تو اپنے آپ کو بے یارو مددگار اور لاچار سمجھتے ہیں۔ ہماری کوئی بات بھی نہیں کرتا ہے کہ ہم تنخواہ اور نوکری کے بغیر کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد میں رہنے والے صحافی اپنے بچوں کی فیسیں ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔ بل دینا مشکل ہوگیا ہے۔’

پاکستان میڈیا

کارکن صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے کئی دھڑوں میں تقسیم ہو جانے کی وجہ سے صحافیوں کی اب کوئی موثر آواز نہیں ہے۔

لاہور کے صحافی اور کالکم نگار محمد نواز طاہر:

‘پاکستان میں میڈیا ایک مافیا ہے ۔ نواز شریف حکومت کے ختم ہوتے ہی پاکستان میں ہزاروں کا رکن بیروز گار کردیے گئے ہیں ، وجہ سرکاری اشتہارات میں کمی بیان کی جاتی ہے ، دوسری جانب عامل صحافیوں اور میڈیا مالکان کے پیاروں کی تنخواہوں میں زمین آسمان کا فرق ہہے ، عامل صحافیوں کی تنخواہوں پر دس سے بیس فیصد تک کٹ لگایا گیا ہے یہاں تک کہ ڈان گروپ کے نیوز چینل ڈان نیوز نے بھی یہ کٹوتی شروع کردی ہے جبکہ یہ ادارہ کارکنوں کے حوالے سے دیگر اداروں سے ہمیشہ بہتر رہا ہے۔ نثار عثمانی ، آئی ایچ راشد جیسے لیڈر اس ادارے میں بیٹھ کر کارکنوں کو لیڈ کرتے رہیں اور آخری لیڈر شفیع الدین اشرف ( چیئرمین اپینک )پچھلے ماہ ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جن کے بعد انتظامیہ نے کارکنوں کی تنخواہوں پر کٹ لگانے کی جرات کی۔’

کراچی کی ایک خاتون:

ان خاتون صحافینے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تنخواہیں نہ ملنے کے حالات کے بارے میں یہ بتایا:

‘گزشتہ دو ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے اب مجھے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ مجھے کرایہ دینا ہوتا ہے، بل ادا کرنا ہوتے ہیں، اور سفری اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے اب مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تنخواہیں تو مل ہی نہیں رہی ہیں، لیکن اب یہ بھی خطرہ بڑھ گیا ہے کہ میڈیا کی انتظامیہ بغیر کسی نوٹس کے نوکری سے ہی نہ نکال دے۔ اب تمام میڈیا ورکرز تنخواہوں میں کٹوتی، تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی، بندش اور برطرفی جیسے خطرات کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک جگہ سے نوکری چلی جائے تو پھر دوسری جگہ ملے گی نہیں کیونکہ باقی اداروں میں نوکریاں ہیں ہی نہیں۔’

لاہور کے صحافی حسین کاشف:

اپنے خاندان کا واحد کفیل ہوں۔ اب تو کئی مہینوں سے جبری بے روزگار ہوں۔ اب تو فاقوں تک نوبت پہنچ چکی ہے۔ ایک سفید پوش صحافی کے طور پر میرا خدا ہی جانتا ہے کہ میں قرض لے لے کر کیسے زندہ ہوں۔ اب میں اپنے بچوں اور بیوی کی ضروریات پوری بھی نہیں کر پا رہا ہوں۔ لوگ مجھے دیکھ کر رستہ بدل لیتے ہیں کہ کہیں میں ان سے قرض نہ مانگ لوں۔ میری عدالت عظمیٰ سے درخواست کہ کو وہ میڈیا مالکان کو حکم دیں کہ کارکن صحفیوں کے واجبات ادا کریں تاکہ مجھ جیسے کمزور صحافی اپنے خاندان کی دو وقت کی روٹی کا انتظام تو کرکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp