میری بنیادی شناخت ادب کے قاری کی ہے : آصف فرخی


سوال:آپ افسانہ نگار ہیں، مترجم، نقاد اور مدیر بھی ہیں، کبھی کبھی آپ ہمیں اینکر بھی نظر آتے ہیں۔ آپ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بیک وقت لکھتے ہیں۔ آپ کی فیلڈ آف اسپیشلائزیشن یعنی آپ کی شناخت کیا ہے؟

ڈاکٹر آصف فرخی: میری بنیادی شناخت اگر کوئی ہے، جس پر ایک سوالیہ نشان ہے، وہ پہلی شناخت ہے۔ اور جس پر مجھے اصرار ہے وہ ایک پڑھنے والے کی ہے۔ ادب کے ایک قاری کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو ادب میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ایسا شخص جس کے لیے ادب زندگی کا بہت اہم حصہ ہے، جس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مجھے اپنے پڑھنے پر بہت اصرار ہے۔ یہ میرا شوق ہے۔ اس کے بعد تھوڑا بہت اپنی بساط کے لحاظ سے لکھنا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ میں نے کئی اصناف میں کوشش کی۔ شاید اس لیے کہ یہ اپنا راستہ ڈھونڈنا، اپنے طرز اظہار کی جستجو، اپنی دریافت کا ایک عمل ہے۔ اس حوالے سے اصناف سامنے آتی رہی ہیں۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ وفاداری بشرط استواری کے قائل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اگر آپ افسانہ نگار ہیں تو تنقید نہ لکھیں، اور تنقید نگار ہیں تو ڈراما نہیں لکھنا چاہیے۔ چونکہ میں سب چیزیں پڑھتا ہوں اور ان میں دلچسپی لیتا ہوں، اس لیے کوشش یہ کرتا ہوں کہ خود کو آزما کر دیکھوں۔ لیکن ہر بار اس آزمائش میں پورا نہیں اترا۔ ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے۔ یہی چیز مجھے لکھتے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ میں چونکہ ایک بہت کمزور اور بے بس ادیب ہوں اسی لیے کسی ایک صنف پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکا۔ ہر بار یہ کوشش کی کہ صنف مجھے وہ طاقت دے دے جو میرے لکھنے میں نہیں۔ ابتدا میں نے شاعری سے کی، مگر شاعری میرے پلے میں زیادہ تھی نہیں۔ پھر نثر کی طرف آیا۔ افسانے لکھے۔ کچھ تھوڑی بہت تنقید لکھی۔

سوال: کبھی آپ کو یہ خیال نہیں آیا کہ آپ نے اپنے آپ کو اتنا زیادہ پھیلا لیا ہے؟ کسی ایک صنف پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے؟

ڈاکٹر آصف فرخی: ہاں! کئی بار یہ خیال آیا اور کسی ایک صنف پر فوکس (مرتکز) کرنے کی کوشش بھی کی، مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ ہر افسانہ نگار کی طرح میں بھی یہ چاہتا تھا کہ ایک ناول لکھوں، اور ناول لکھنے کے لیے جس ارتکاز، فرصت اور زندگی کے جس تجربے کی ضرورت ہوتی ہے وہ کبھی میسر نہیں آیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ناول بننا شروع ہوا اور بنتے بنتے رہ گیا۔ دو باب لکھے، تین باب لکھے، نوٹس لکھے لیکن ناول نہیں لکھ سکا۔ اس کی بنیادی وجہ ارتکاز کی کمی تھی۔ یہ قلق رہے گیا۔ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ تنقید کے حوالے سے ایک مستقل کتاب لکھوں۔ کم از کم تین موضوعات تو ایسے ہیں جن پر میں لکھنا چاہتا تھا۔ محمد حسن عسکری صاحب کے تنقیدی عمل پر کوئی مفصل کتاب لکھنا چاہتا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ انتظار حسین صاحب کی خدمات پر ایسا کام کرجاؤں جو قابل ذکر ہو (میں نے ان پر ایک مختصر کتاب لکھی ہے )۔ ایک ادیب ایسا بھی ہے جسے میں نے بہت دل لگا کر پڑھا ہے اور جن سے میری ذاتی واقفیت بھی رہی ہے۔ ان سے فن کے اسرار و رموز سمجھتا ہوں۔ وہ ہیں حسن منظر۔ لیکن معاشرے میں ان کی وہ پذیرائی نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ ان کے حوالے سے لکھنا چاہتا ہوں۔ کیا پتا کبھی لکھ لوں!

سوال: مجنوں گورکھ پوری نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں لکھا تھا کہ پاکستان میں ادیب کم، اور ادب کے خوردہ فروش زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ بیس سال بعد جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس میں کچھ بہتری آئی؟ تو انہوں نے کہا: نہیں! خوردہ فروشوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ آپ ان کے اس خیال سے کتنا اتفاق کرتے ہیں؟

ڈاکٹر آصف فرخی: دیکھیں میں تو اپنے ہی خیالات سے نامتفق ہوں۔ مجنوں صاحب کا بیان مجھے یاد نہیں۔ ممکن ہے کہ میں نے کبھی پڑھا ہو۔ لیکن اس خیال کے ذمہ دار وہ ہیں، میں نہیں۔ ویسے بھی مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ کس بات پر اعتراض کررہے ہیں؟

سوال:آپ کے خیال میں پاکستان میں آج ادب کس مقام پر ہے؟ لوگ ادب نہیں پڑھتے، ادبی کتابیں خال خال ہی بکتی ہیں۔ پہلے ہزار کتابیں چھپتی تھیں، پھر پانچ سو چھپنے لگیں، اور اب تین سو چھپتی ہیں۔ آپ کی نظر میں ادب کے زوال کی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر آصف فرخی: آپ نے ایک ساتھ تین سوالات کردیے۔ تینوں سوالوں کے الگ الگ جواب دوں گا۔ پہلے کتاب کی اشاعت پر بات کرلیتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ کتاب کی اشاعت کم ہوئی ہے اور اس کے پڑھنے والے کم ہوگئے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کتاب کی اشاعت کم ہوگئی ہے۔ ہمارے اشاعتی ادارے بھی یہی گلہ اور شکوہ کرتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ اب کتابیں کم فروخت ہوتی ہیں۔ یہ بہت ہی حیرت انگیز اور دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں آبادی کا تناسب جیسے جیسے بڑھتا جارہا ہے، پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ اس تناسب سے نہیں ہورہا۔ جس تیزی سے شرح خواندگی کو ہم کاغذوں میں بڑھاتے ہیں وہ شرح خواندگی قارئین کی تعداد میں تبدیل نہیں ہوتی۔ وہ ٹرانسفارمیشن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ اول وہ جو پڑھنا نہیں جانتے، اور دوم وہ جو پڑھنا نہیں چاہتے۔ یعنی ایک لفظ illiteracy ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انگریزی میں ایک لفظ بنایا گیا ہے a literacy۔ یعنی وہ لوگ جو پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میٰں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔ میں اس میں یہ بھی اضافہ کردوں گا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے جو پڑھنا نہیں چاہتے۔ معاصر ادب سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ آپ اگر اُن کے سامنے کوئی اچھا ناول رکھ دیں، شاعری کا کوئی نیا مجموعہ رکھ دیں تو تنقید اور تفہیم کے جو بنیادی اوزار ہوتے ہیں وہ اُن کے پاس نہیں ہوں گے۔ وہ اس کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ محسوس نہیں کر سکیں گے۔

اس کی بنیادی اور اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ جہالت کو فروغ دے رہا ہے۔ اس میں بنیادی کردار ہمارے ادبی نصاب اور نظام تعلیم کا ہے۔ جو تعلیم ہمیں دی جاتی ہے، وہ بڑی ناقص ہے۔ اس سے ادب کی سمجھ، اس کی تفہیم اور اس کا زندگی میں جو مقام ہے وہ احساس پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کتابوں کی اشاعت کیسے بڑھے گی؟

مگر یہ صورت حال بلیک اینڈ وائٹ بھی نہیں ہے۔ ایک عجیب چیز میں یہ دیکھتا ہوں کہ مجھے تھوڑے بہت ایسے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملتا ہے جن میں کتابوں یا ادب کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے، جہاں میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ جوق در جوق آتے ہیں، کتابیں خریدتے ہیں، مصنفوں سے دستخط کراتے ہیں، ان سے ملتے ہیں اور یہ شکایت کرتے ہیں کہ جناب ایسے مواقع کم ملتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3