ڈاکٹر نائلہ علی خان کا آکسفورڈ اسلامک سٹڈیز کی ڈی لانگ باس کے ساتھ انٹرویو


نتانا ڈی لانگ باس بوسٹن کالج میں تھیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ وابستہ ہے اور آکسفورڈ اسلامک سٹیڈیز آن لائین کی ڈپٹی ایڈیٹر بھی۔ میں اس وقت خود اوکلا ہامہ یونیورسٹی میں ویزیٹنگ پروفیسرکی حیثیت سے کام کررہی ہوں۔ آکسفورڈ اسلامک ادارے کے تحت اسلام کے امن اور صلاح پسندفلسفے کو امریکہ اور باقی دنیا میں عام کرنے کی غرض سے کافی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ڈی لانگ باس نے کچھ روز قبل میرے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران زیادہ تر سوالات کشمیری خواتین اور اُن کے حقوق کے بارے میں پوچھے ہیں۔

 میں نے ان کے سوالات کا جواب اپنی، تصانیف خاص کر ”دی فیکشن آف نیشنلٹی ان این ایرا آف ٹرانس نیشنلزم“ اور ”اسلام، وومن اینڈ دی وائلنس ان کشمیر“ کے پس منظر میں اپنی اُن کوششوں کے بارے میں دیا، جو جموں کشمیر خاص طور سے وادی میں بہت پہلے سے حاشیہ پر بیٹھی خواتین کی خود اختیاری کی ضرورت کو اُجاگر کرتی ہیں۔ ان خواتین کی آواز کو دبانے کے لئے عام بول چال کو روایت کی صورت دی گئی ہے۔ اس پر حد یہ کہ اس خطے پر اپنی اپنی سرداری کا حق جتلانے والی قوتیں خواتین کی اس تذلیلی عمل کو اپنی اپنی بھاشا میں توڑ مروڑ کر پیش کرتی رہی ہیں۔ یہ دونوں پہلو خواتیں کو خود اختیاری کے مقام تک لے جانے کی راہ کی اڑچنیں ہیں۔ میں نے قومیت کے نظریات، مذہبی اور شعوری آزادی، جمہوری عمل میں شراکت داری، عسکریت اور قانونی پس منظر میں کشمیری خواتین کی حالت زار کو سامنے لانے کے لئے کوششیں کی ہیں۔

میں ان خواتین کو تہذیبی جارحیت کا شکار ہوتے دیکھنا برداشت نہیں کرتی ہوں۔ کشمیر میں میری وراثت اور میرے خاندان کا بھی یہی تقاضا رہا ہے کہ ریاست میں خواتین کو قومیت کے جذبات سے سرشار کیا جائے اور اس دوران اُن کے نسلی جذبات، مذہبی آزادی اور سیکولرازم کے تصورات کو بھی اہمیت دی جائے۔ جیسا کہ عیاں ہے کشمیر سے متعلق میرے تحقیقی مقالات میں خواتین کو درپیش مسائل کو ہی اہمیت دی گئی ہے۔

ریاست جموں کشمیر پچھلے پچیس برسوں سے مسلح بغاوت اور جوابی فوجی کارروائیوں کا میدان کارزار بنی ہوئی ہے اور نتیجے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں وادی کا سیاسی، اقتصادی، سماجی اور تہذیبی اعتبار سے کافی حد تک بکھراؤ ہو گیا ہے۔ میں اس جنگی ماحول میں بھی کشمیری خواتین کے ساتھ جاری وحشیانہ پن اور اُن کی جدوجہد پر روشنی ڈالنے کی بھر پور کوششیں کر رہی ہوں۔ وہ مجموعی طور ابھی تک مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر فیصلہ سازی کے اداروں میں شریک کار نہیں بن سکی ہیں۔ ان خواتین کو اپنے حقوق منوانے کے لئے اجتمائی نوعیت کی سرگرمی دکھانے کا موقع نہیں مل سکا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی حکومت خواتین کے مسائل کو حل کرنے اور اُن کو انسانی ہمدردی کے تحت امداد پہنچانے کا اقدام نہیں کر پائی ہے۔

اگرچہ حکام ریاست کو ترقی یافتہ قرار دینے اور ملی ٹینسی سے جڑے واقعات کو رومانی انداز میں پیش کرنے میں آگے رہتے ہیں۔ میں انصاف دلانے کے طریقہ کار میں تبدیلی لانے اور متحرک خواتین کو سول سوسائٹی کے دوسرے کرداروں کے ساتھ مل کر سماج کے تانے بانے کو جوڑنے کے لئے بھی وکالت کرتی آئی ہوں تاکہ سیاسی اداروں میں خواتین کی بھرپور شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ انصاف دلانے کے مناسب طریقہ کار کے بدولت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سنجیدہ نوٹس لیا جائے اور بنیادی ڈھانچے کی از سر نو تعمیر اور پیداواری صلاحیتوں کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے سماجی خدمات انجام دینے میں پھر سے اپنا حصہ ادا کرنے کے مواقع پیداکیے جاسکیں۔

انٹرویور ڈی لا نگ باس کے ایک اور سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ کشمیر میں ہم عصر خواتین کے نسلیاتی احوال، لٹریچر، تمدن، اقتصادیات اور سیاست کے بارے میں کتابی صورت میں تحریر کرنا میری تصنیف ”اسلام، وومن اینڈ وائلنس ان کشمیر“ پہلی ایسی کوشش ہے جو اس خلا کوپورا کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے۔ میرے اس تنقیدی جائزے کا سیاسی مقصد رہا ہے۔ میں نے ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے کشمیری خواتین کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوششوں کا توڑ کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی آواز کو اُبھارنے کی بھی سعی کی ہے۔ میں پوری تیاری کے ساتھ مغرب اور مغرب کے باہر کی دنیا کو کشمیری خواتین کی اصل حقیقت سے واقف کرانے کے لئے کوششوں میں مگن رہی ہوں اور اُن طور طریقوں کو باور کرتی رہی جو تجربات کی بنیاد پر تاریخ تیار کرنے کا موجب بنتے رہے ہیں اور وقت وقت پر اس کام میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں۔

دو دہائیوں پر محیط ملی ٹینسی اور ملی ٹینسی مخالف کارروائی وں کے حالات میں ہی میں نے ”اسلام۔ وومن اینڈ وائلنس“ کتاب لکھنے کا قصد کیا۔ اس دوران میرے وطن میں کافی تباہی ہوتی رہی ہے۔ مجھے جسمانی طور وطن سے باہر رہنا پڑا لیکن جذباتی طور اسی سر زمین کا جزو لاینفک بنی رہی۔ اس کتاب کے ساتھ ہی میں نے ”پارچمنٹ آف کشمیر، ہسٹری، سوسائٹی اینڈ پولیٹی“ نام سے اپنی وابستگی اورخیالات کے پس منظر میں ایک اور مجموعہ بھی سپرد قلم کیا۔ اس میں کشمیر کے سیاسی، تہذیبی، سماجی و اقتصادی حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے جموں کشمیر کے اسکالرز کو اپنی آواز بلند کرنے اور اور بھول بھلیاں جیسے کشمیر مسلے پر بحث کرنے کے لئے ایک موثر فورم ملا۔

اب حال ہی میں نے اپنی نانی جان کی زندگی پر ایک اور کتاب کو مکمل کیا ہے۔ میں نے اس خاتون کی زندگی اور کام سے متعلق معلومات کو تفصیلاً پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا میری نانی جان اکبر جہاں کی مصائیب و مشکلات سے پُر زندگی کی کتاب کا تعصب کی قید سے باہر آ کرمطالعہ کیا جائے گا۔ میں نے اس کتاب کے ابتدا میں ہی لکھا ہے کہ خاندانی آثار قدیمہ میں وہ سب تفصیلات موجود نہیں ہیں، جواس خاتوں کی جدوجہد سے پُر زندگی کے مختلف گوشوں کو دنیا کے سامنے لانے کی بنیاد فراہم کرسکتی تھیں۔ میں چاہتی ہوں کہ قارئین اکبر جہاں کی زندگی کے نہ صرف پُرپیچ و خم سیاسی اور دانشورانہ پہلوؤں کا تجزیہ کریں بلکہ اُن کو ایک خاتون، ایک بیوی، ایک ماں اور ایک سیاسی و سماجی محرک کے علاوہ ایک کشمیری قوم پرست کی حیثیت سے بھی پڑھیں۔

ڈی لانگ باس کے ایک اور سوال کہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا پس منظر کیا ہے اور آپ کی تحقیق کیا چلینج پیش کرتی ہے، کے جواب میں میرا یہ کہنا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے 1947 ء کے بعد بھارت اور پاکستان کی تواریخ کو صحیح ڈھنگ سے ترتیب نہیں دیا گیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل اور بعد ازاں بھی کشمیری قومیت کی تعمیر کے بارے میں دونوں ممالک کی تواریخ میں غلط اندراجات کیے گئے ہیں۔ جیسے کشمیری قومیت کی بنیاد 1931 ء میں پڑ گئی تھی اور اس کو مختلف نسلوں کی مخلوط قومیت کے طور تسلیم کیا گیا تھا۔ اس قومیت کو لسانی، مذہبی، تہذیبی یا نسلیاتی اکثریت کے نظریات سے قائم نہیں کیا جارہا تھا۔ اس بنیادی بات کو نہ بھارت اور نہ ہی پاکستان کی تاریخ میں درج کیا گیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan