پاکستان اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات میں کیا رکاوٹ ہے؟


”ہم پاکستان سے دشمنی نہیں چاہتے اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان بھی ہمارا دشمن نہیں“

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے یہ الفاظ گزشتہ سال کے شروع میں اپنے دورہ ہندوستان کے موقع پر کہے جو ان سفارتی اصولوں کی عین مطابق ہیں کہ بین الریاستی تعلقات مذہبی تعصب کی بجائے زمینی حقائق اور قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر مرتب کیے جاتے ہیں

من حیث القوم ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ عصر حاضر میں ملکوں کے تعلقات مذہبی جنونیت، قومی جذباتیت اور عسکری تعاون پر استوار نہیں کیے جاتے بلکہ آج کے دور میں اقوام کے مابین سفارتی تعلقات کی بنیاد تجارت کے حجم، معاشی تعاون اور سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیقاتی تبادلہ پر رکھی جاتی ہے۔

گزشتہ کچھ دنوں سے میڈیا اور مذہبی جنونی طبقات نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو محض اس وجہ سے حرف مشق بنا رکھا ہے۔ کہ وزارت امور خارجہ نے 31 سالہ پاکستانی یہودی فشل خالد کو بیت ا المقدس جانے کی ویزہ درخواست منظور کر لی ہے۔۔ فشل خالد نے رواں ماہ کے اوائل میں وزیراعظم پورٹل کے ذریعہ وزارت امور خارجہ کو اسرائیل کے لیے ویزہ درخواست دے رکھی تھی جو منظور کر لی گئی۔

بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ قومی جذباتیت اور مذہبی شدت پسندی کے ہاتھوں یرغمال رہی جس کی وجہ سے انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی محاذ پر ہمیں کوئی بڑا بریک تھرو نا مل سکا۔ سول حکومتیں تو خیر متوقع فتویٰ فیکٹری اور غداری کے الزامات کے پیش نظر اسرائیل سے متعلق خارجہ پالیسی پر نظرثانی سے گریز برتتی رہی ہیں، تاہم اس ضمن میں کسی سے نا ڈرنے والے کمانڈو پرویز مشرف نے کچھ عملی اقدامات ضرور کیے جنھیں کوئی منتخب جمہوری حکومت غداری یا یہودی نواز کے فتووں کے ڈر سے اٹھانے کا سوچ بھی نہی سکتی۔

پرویز مشرف وہ پہلے پاکستانی حکمران تھے جنھوں نے عوامی سطح پر کھل کر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلی بار کسی پاکستانی حکمران نے امریکہ کی سب سے بڑی اسرائیل نواز تنظیم ”امریکن جیوش کانگریس“ سے خطاب کیا اور اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کا حکم دیا

ہم نے ہمیشہ اسرائیل سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی کو عربوں کے پاس گروی رکھا جو چند ماہ پہلے تک انڈیا سے سفارتی تعلقات کو ہم پر ترجیح دیتے رہے ہیں۔ ہم نام نہاد ”مسلم امہ“ سے اظہار یکجہتی کے کے طور پر اسرائیل کی مخالفت کرتے رہے ہیں حالانکہ اسرائیل کو بنانے میں عربوں کا بڑا ہاتھ ہے۔۔ سنہ 1915 میں معاہدہ بالفور کے تحت مکہ کے شاہ حسین بن علی نے برٹش حکومت کو جنگ عزیم اول کے دوران خلافت عثمانیہ کی مخالفت کی یقین دہانی کے بدلے عرب ریاستوں کی خودمختاری اور خلافت عثمانیہ سے علیحدگی کا مطالبہ کیا جو آگے چل کر ریاست اسرائیل کی بنیاد بنا فلسطینیوں نے 1880 سے 1930 تک یہودی آبادکار تنظیموں PJCA، PLDC اور JNF کو وسیع پیمانے پر زمینیں بیچیں۔

ترکی وہ پہلا اسلامی ملک ہے۔ جس نے 1949 میں اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان حال ہی میں امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ”دنیا میں آپ کہیں بھی رہتے ہوں، ایک آزاد ریاست آپ کا حق ہے۔ جہاں آپ اپنا قومی تشخص برقرار رکھ سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل اور فلسطین پرامن ہمسائے کے طور پر رہ سکتے ہیں“۔ آج اسلامی ممالک کی اکثریت اسرائیل سے سفارتی تعلق استوار کیے ہوئے ہیں اور اپنے سفارتخانے بھی قائم کر رکھے ہیں اور کیوں نا ہوں کہ دنیا کی 250 سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ آفس اسرائیل میں ہیں۔ ”جگاڑ“ پر چلنے والی ہماری ریاست شاید چند مہینے یا سال تو عربوں کے ڈالرز پر نکال لے لیکن ہمالیہ سے بلند ہوتی چینی اور ہندوستانی معیشتوں کے درمیان پھنسی اس ریاست کو آج بھی اپنی برباد معیشت کے لیے پالیسی بنانے کی بجائے قومی و مذہبی جذباتیت مقدم ہے۔

ہم جب تک مذہب اور سیاست کو گڈمڈ کرتے رہیں گے تب تک اپنی سمت کا تعین نہی کر سکتے۔ ہمارا مذہبی جنونی ذہن اسرائیل کو بطور ریاست تو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں مگر اسرائیلی مصنوعات اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اسرائیل نے جنوبی ایشا میں طاقت کا توازن بھارت کے پلڑے میں کرنے میں ہمیشہ اہم رول ادا کیا اور یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر دنیا نے ہمیشہ بھارت کے موقف کو ترجیح دی۔ ہمیں صرف اپنے ملکی مفاد اور عوام کے بہتر معیار زندگی کے حصول کے لیے اپنی پالیسیوں کو مرتب کرنا ہوگا۔ شاید ہمارے پالیسی ساز اس معاملہ کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کوئی بڑا بریک تھرو دے سکیں۔

اگر آپ کے خیالات میرے تصورات سے متصادم ہیں تو برائے مہربانی مجھ سے مدلل اختلاف کریں کہ یہ آپ کا حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).