لبرل فاشسٹ اس پہاڑ کو نانگا پربت کیوں کہتے ہیں؟


\"np00_IMG_5459_p\"

چلاس کے شنگریلا سے ہم سو روپے کا پراٹھا اور ڈیڑھ سو روپے کا مبینہ طور پر دو انڈوں کا آملیٹ نوش جان فرما کر آگے چلے تو کچھ دیر بعد ہی ایک جگہ بورڈ نظر آیا کہ اپنے بائیں جانب دیکھنے کی زحمت اٹھائیے، ادھر نانگا پربت ہے۔

غالباً یہاں اس سے پیشتر بھی ہم جیسے عالی دماغ سیاح آتے رہے ہوں گے جو کہ قوم کی حالت پر غور و فکر کرنے میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے اس 26,660 فٹ اونچے پہاڑ کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہوں گے، اس لیے حکومت کو زر کثیر خرچ کر کے یہ بورڈ لگانا پڑا ہے۔

\"np03_DSC_2538_p\"

رفیق نے ہماری سواری اس بورڈ کے پاس روکی اور ہم نے نیچے اتر کر اس پہاڑ کو ملاحظہ کرنا شروع کیا۔ ہم نے سنا تھا کہ یہ خوب اونچا پہاڑ ہے اور اس پر چڑھنا کافی مشکل کام ہے۔ لیکن ہمیں تو یہ کوئی خاص اونچا نہ لگا۔ ثبوت کے طور پر ہم نے وہاں ایک تصویر بھی کھنچوائی جس میں یہ واضح طور پر ہمارے کاندھے تک ہی بلند دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ہم نے بعد میں ایک قابل اعتبار ذریعے سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ پہاڑ واقعی چھبیس ہزار چھے سو فٹ بلند ہے۔ یعنی ہم انجانے میں کوئی چھبیس ہزار چھے سو فٹ بلند مقام تک پہنچ کر اپنی گاڑی سے اترے تھے اور اپنے چھے فٹ قد کی وجہ سے اس پہاڑ کی چوٹی سے بلند دکھائی دے رہے تھے۔ بہرحال ہماری اس بلندی پر ہمارے حاسدین ایسی تہمت تو لگائیں گے کہ یہ فوٹو شاپ کا کارنامہ ہے یا کیمرہ ٹرک ہے۔ تو ان سے عرض ہے کہ محنت کر حسد مت کر۔

\"np02_DSC_2551_p\"

وہاں کھڑے کھڑے ہی دیکھا کہ کبھی تو نانگا پربت کی چوٹی گھنے بادلوں میں کھو جاتی تھی، اور کبھی کبھار واضح دکھائی دینے لگتی تھی۔ یہاں آنے سے پیشتر ملک الجبال ہمیں مطلع کر چکے تھے کہ نہایت خوش قسمت لوگ ہی نانگا پربت کی چوٹی کو دیکھ سکتے ہیں ورنہ یہ بادلوں کے گھیرے میں رہتی ہے۔ اپنی خوش بختی پر اگر کوئی ہلکا سا شبہ تھا تو وہ نانگا پربت کی چوٹی کو دیکھ کر دور ہو گیا۔

ہم نے تحقیق کی کہ اسے نانگا پربت کیوں کہتے ہیں، حالانکہ چوٹی ننگی نہ تھی اور اس پر برف پڑی ہوئی نظر آ رہی تھی، اور جہاں کچھ کسر تھی تو وہ بادلوں کی چادر نے پوری کر دی تھی۔ یہ تو علم نہ ہوا کہ یہ نام کس نے ڈالا تھا، کیونکہ مقامی زبان میں تو اس کا نام شل مکھی دیامیر، یعنی سو چہروں والا بلند پہاڑ ہے، لیکن بہرحال ہمیں اس نام میں لبرل فاشسٹوں کی سازش ہی معلوم ہوئی جو پاکستانی میں عریانیت پھیلانے پر مامور ہیں اور ہمارے بعض قابل قدر صحافی اور دانشور اسے ناکام بنا رہے ہیں۔ ان مجاہدین سے درخواست ہے کہ سرکاری کاغذات میں سے یہ نانگا پن دور کر کے اس پہاڑ کا نام شل مکھی رکھنے کی تحریک چلائی جائے اور ارض پاک سے یہ عریانیت ختم کی جائے۔

\"np04_DSC_2540_p\"

ہمیں یہ بھی علم ہوا کہ اس معصوم سے اجلے اجلے پہاڑ کو بعض لوگ، خاص طور پر نابکار گورے، قاتل پہاڑ کہتے ہیں۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ایسی ہرگز کوئی بات نہیں ہے۔ ہم وہاں پندرہ منٹ تک کھڑے رہے، اور بہت زوم کر کے بھی پہاڑ کو دیکھا، مگر ہمیں کوئی قتل ہوتا دکھائی نہ دیا۔ یہ یہود و ہنود اور شرمین چنائے کی پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش لگتی ہے کہ اس پہاڑ کو وہ قاتل پہاڑ کے طور پر مشہور کر دیا گیا ہے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ ایک پرامن پہاڑ ہے۔

اسی طرح کچھ مقامی روایات کے مطابق شل مکھی دیامیر پر پریوں کی ملکہ رہتی ہے۔ اس کی حفاظت برف کے بڑے بڑے سانپ اور دیو قامت برفانی مینڈک کرتے ہیں۔ اس خطرے سے کہ کہیں ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر پریوں کی ملکہ حسد کا شکار نہ ہو جائے، مقامی عورتیں بھڑکیلے رنگین کپڑے پہننے اور بیوٹی پارلر سے تیار ہونے سے احتراز کرتی ہیں۔ ہمیں خوب زوم کرنے کے باوجود پریوں کی ملکہ، برفانی مینڈک اور سانپ کہیں دکھائی نہ دیے۔ غالباً یہ روایت بھی غلط ہے اور وہاں پریاں وغیرہ نہیں رہتی ہیں۔

\"np07_DSC_2801_p\"

بہرحال ہم نے کچھ تحقیق کی تاکہ اس بلند و بالا پہاڑ کا حال معلوم ہو۔ علم ہوا کہ یہ قصہ حاتم طائی والے کوہ ندا کی مانند ہے۔ جس گورے کی قضا آتی ہے، اسے یہ پہاڑ صدا دیتا ہے، اور پھر وہ گورا ادھر دفن ہونے کے لیے کھنچا چلا آتا ہے۔

نانگا پربت دنیا کا نواں بلند ترین پہاڑ ہے۔ یہ دنیا کے آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند چودہ پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کی ان چودہ اٹھ ہزاریوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں جو کہ کے ٹو، نانگا پربت، گیشر برم، براڈ پیک، اور گیشر برم ٹو ہیں۔ نانگا پربت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ نانگا پربت ان آٹھ ہزاری پہاڑوں میں سے واحد پہاڑ ہے جس کے اتنے قریب سے سڑک گزرتی ہے کہ شہرت کے متلاشی سیاح وہاں گاڑی روک کر اس کے ساتھ اپنی سیلفی اتار سکتے ہیں۔

\"np11_IMG_5462_p\"

اس لحاظ سے اس پہاڑ کے بیس کیمپ تک کوہ پیماؤں کا جانا نہایت آسان ہے، ورنہ ادھر کے ٹو کے بیس کیمپ تک جاتے جاتے تو کوہ پیماؤں کی بس ہو جاتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس کا روپل والا پہلو دنیا کی لمبی ترین سیدھی چڑھائی ہے جو کہ سطح زمین سے چار ہزار چھے سو میٹر ہے جو کہ پندرہ ہزار نوے فٹ بنتے ہیں۔ شروع شروع میں کوہ پیما اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے کہ بہت آرام سے آدھے سے زیادہ فاصلہ تو ہم نے ہتھوڑی چھینی کے بغیر ہی پاؤں پاؤں چل کر طے کر لیا، اور یہ باقی پندرہ ہزار فٹ آرام سے طے ہو جائیں گے، مگر یہ پہاڑ تو نہایت ہی شریر نکلا۔

\"Albert_Mummery\"

اسے دیکھ کر سب سے پہلے 1895 ممیں البرٹ ممری نامی ایک انگریز کوہ پیما اپنے دو گورکھا شرپاؤں اور \’نارمن قلی\’ نامی ایک دوسرے گورے کے ساتھ اس پر چڑھنے آیا۔ البرٹ ممری کو جدید فن کوہ پیمائی کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ پہلی کوہ پیما مہم تھی جس نے کوہ ہمالیہ کے کسی اٹھ ہزاری پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کی۔ اور ظاہر ہے کہ اتنے آسان بیس کیمپ والے نانگا پربت پر چڑھنا ممری کو اٹھ ہزاریوں میں سب سے زیادہ آسان نظر آیا۔ مگر 6100 میٹر کی بلندی پر البرٹ ممری اور دونوں شرپا ایک ایوا لانچ کی زد میں آ کر وہیں دفن ہو گئے اور صرف \’نارمن قلی\’ واپس آیا۔ اس طرح یہ ان اکتیس افراد میں سب سے پہلے انسان تھے جو کہ نانگا پربت کے فتح ہونے سے پہلے اس پر قربان ہوئے۔

اس کے بعد گورے آتے رہے اور مرتے رہے لیکن یہ پہاڑ ناقابل تسخیر رہا۔ پل پل بدلنے والا موسم اور برفانی ایوالانچ میں دب کر یہ کوہ پیما ناکام ہوتے رہے۔ اسے جرمن پہاڑ کہا جاتا ہے کیونکہ اس پر جرمنوں کی پے در پے ٹیموں نے چڑھنے کی کوشش کی۔ بعد میں جاپانی بھی اس پر قربان ہو ہو جاتے رہے۔

\"hermann-bulh-on-nanga-parbat\"نانگا پربت کو سر کرنے میں کامیابی تین جولائی 1953 کو آسٹرین کوہ پیما ہرمن بوہل کو نصیب ہوئی جو کہ جرمن آسٹرین کوہ پیما ٹیم کا ممبر تھا۔ چوٹی سے 1300 میٹر نیچے باقی ساری ٹیم کی بس ہو گئی اور انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ جرمن بھی غالباً کچھ پٹھان پٹھان سے ہی ہوتے ہیں۔ ہرمن بوہل صاحب نے جو فیصلہ کیا تھا کہ بس یہ پہاڑ چڑھنا ہے، اس پر اٹل رہے۔

بوہل صاحب نے لمبے روٹ کے ٹرک ڈرائیوروں کی طرح  پرویٹین نامی انگریزی نسوار چڑھائی، جو کہ دوسری جنگ عظیم میں فوجی بھی جوش و جذبہ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے رہے تھے، اور اس کے ساتھ کوکا نامی پودے کی چائے کا ایک کپ بھی چڑھا لیا۔ کوکا سے ہی کوکین نامی مشہور نشہ آور شے بنتی ہے جو کہ بعض نمایاں لوگوں کی محبوب ڈرگ بتائی جاتی ہے۔ بہرحال اس دو آتشے کو چڑھانے کے بعد بوہل صاحب نانگا پربت کیا، ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کو \"hermann-buhl_broad-peak_diemberger\"بھی خود کو تیار پاتے تھے۔

وہ اکیلے ہی نکل کھڑے ہوئے اور شام کو سات بجے چوٹی تک پہنچ گئے۔ یہ ان کے اندازے سے بہت زیادہ وقت تھا۔ واپس اترتے ہوئے بوہل کے جوتے کا کریمپون نامی نوکیلا دھاتی حصہ بھی ٹوٹ گیا جو کہ برف میں پاؤں جمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب گھپ اندھیر چھا چکا تھا۔ بوہل نے پہاڑ کی ایک نہایت تنگ سی کگر پر کھڑے ہو کر رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک ہاتھ سے ایک چھوٹی سی گرفت تھام کر پہاڑ سے چپکے رہے۔

نانگا پربت کی دیوی کو ہرمن بوہل پر رحم آیا اور خلاف معمول رات کو منجمد کر دینے برفانی ہوائیں اس شب نہ چلیں۔ اکیلے نکلنے کے چالیس گھنٹے بعد اگلی شام کو سات بجے ہرمن بوہل واپس اپنے کیمپ میں پہنچے۔ بوہل نے یہ چڑھائی آکسیجن کے بغیر طے کی تھی اور بوہل وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تن تنہا کسی اٹھ ہزاری چوٹی کو سر کیا۔

\"Reinhold_Messner\"

سنہ 1970 میں گنتھر اور رائن ہولڈ میسنر نامی بھائیوں کی ٹیم نے روپل کی جانب سے نانگا پربت چڑھنے کی کوشش کی۔ روپل کی جانب سے اس سے پہلے کوئی نہیں گیا تھا۔ وہ تاریخ میں نانگا پربت کی چوٹی تک پہنچنے والی تیسری ٹیم تھے۔ لیکن روپل کا راستہ اتنا مشکل تھا کہ ان دونوں بھائیوں نے دوسری جانب دیامیر کی جانب سے اترنے کا فیصلہ کیا۔ گنتھر ایک ایوالانچ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا۔ رائن ہولڈ کے اس حادثے کے بارے میں بیان کو متنازع کہا جاتا رہا اور اس پر گنتھر کو مرنے کے لیے وہیں چھوڑ دینے کا الزام لگایا گیا۔ بالآخر پینتیس برس بعد 2005 میں گنتھر کی لاش پہاڑ سے برآمد ہوئی جس کے بعد رائن ہولڈ کے بیان کو سچ تسلیم کر لیا گیا۔

نانگا پربت اپنے شکاروں کو اپنی سرد برفوں میں محفوظ رکھتا ہے۔ رائن ہولڈ میسنر کو کوہ پیمائی کی تاریخ کا عظیم ترین کوہ پیما تصور کیا جاتا ہے۔ وہ پہلا شخص ہے جس نے اضافی آکسیجن کے بغیر نہ صرف ماؤنٹ ایورسٹ بلکہ چودہ کی چودہ اٹھ ہزاری چوٹیاں سر کی ہیں۔ سنہ 1978 میں رائن ہولڈ دوبارہ نانگا پربت آیا اور اکیلا بیس کیمپ سے نانگا پربت کی چوٹی تک جا پہنچا اور تاریخ میں کسی اٹھ ہزاری چوٹی کو بیس کیمپ سے چوٹی تک تن تنہا سر کرنے والے پہلے انسان کی حیثیت سے اپنا نام درج کروانے میں کامیاب ہوا۔

نانگا پربت کے بارے میں ایک اور ٹیم کی روداد بھی ہے جب کوہ پیماؤں کے ساتھ جانے والے مقامی پورٹروں نے شفاف برف میں دبی ہوئی لاشوں کو اچانک نمودار ہوتے دیکھا تو اپنے کوہ پیماؤں کو وہیں پہاڑ پر چھوڑ کر بھوت بھوت ہوئے نیچے دوڑ گئے اور مہم ناکام ہوئی۔

ہم شل مکھِی دیامیر کو خوب غور سے دیکھنے کے بعد وہاں سے ہنزہ کی طرف روانہ ہوئے کہ ہمارا اگلا پڑاؤ اب کریم آباد میں تھا۔


اس سیریز کی  اقساط

مہمان، ہنزہ پولیس اور پنجابی افسر

سینیٹر طلحہ محمود ۔ شاہراہ قراقرم کے معمار

مانسہرہ: شہنشاہ اشوک کی عظیم سلطنت کے ستون

ملک الجبال کے سائے میں بشام تک

سفر خنجراب: بشام سے کوہستان تک

سفر خنجراب: کوہستان سے چلاس تک

لبرل فاشسٹ اس پہاڑ کو نانگا پربت کیوں کہتے ہیں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments