قلندر بابا اولیا ؒ ، ایک عظیم روحانی سائنسدان



\"kaleem\"سلسلہ نبوت رحمت العالمین ﷺ پر ختم ہوا تو صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین اور پھر اولیا اللہ نے انسانوں کی بھلائی اور خدمت کے مشن کے ساتھ ساتھ اللہ کی واحدنیت کا پرچم بلند کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔جزیرة العرب وہ خطہ ہے جسے انبیا علیہ اسلام کی سرزمین کہا جاتا ہے اوربرصغیر وہ خوش قسمت سرزمین ہے جسے جہاں انبیا کرام کے حقیقی ورثا اولیا اللہ کی ایک بڑی تعداد نے اپنا مسکن بنایا ۔حضرت سید ہجویری اوربہاالدین ذکریا ملتانی سمیت بہت سے تو ایسے تھے جو کسی اور ملک سے ہجرت کر کے برصغیر میں تشریف لائے اور یہیں کے ہو رہے ۔ کراچی سے لے کر کشمیر کے برف زاروں اور پھر دلی سے پرے تک اولیاءاللہ نے اس سرزمین پر واحدانیت کا پرچم اس طرح بلند کیا کہ اپنے پرائے سبھی ان کی محبت کے اسیر ہوگئے ۔
©©قرآن حکیم ، فرقان مجید میں واضح ہے کہ” اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہی غم“۔ حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ ”علم توحید اس (اللہ )کے وجود سے جدا ہے اور اس(اللہ) کا وجود علم سے الگ ۔ یعنی رب ذوالجلال علم کی حد سے باہر ہے ۔خالق کائنات کی ذات اس قدر وسیع ہے کہ کوئی علم اللہ تبارک و تعالی کا احاطہ یا اندازہ نہیں کر سکتا “۔ گویا علم توحید ایسا معاملہ ہے جو آسانی سے سمجھ میں آنے والا نہیں بلکہ یہ دولت یقین والوں کے حصے میں ہی آتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یقین اللہ والوں کے در سے ہی ملتا ہے اور اللہ والے ہی دنیا و آخرت کی حیققت کو پورے طور پرجانتے اور سمجھتے ہیں ۔
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہیے کہ کیا ہے یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
بندوں کو ایمان کی دولت سے سرفراز کرنے کیلئے ہادی برحق حضور اکرم ﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ ، تابعین ، تبع تابعین اورپھر اولیائے کرام مخلوق خدا کے راہبر بنے ۔بر صغیر وہ خوش قسمت سرزمین ہے جسے حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ ، حضرت نظام الدین اولیاءمحبوب الہی ؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ ، حضرت علاو¿الدین صابر کلیری ؒ ، حضرت بو علی شاہ قلندر ©ؒ ، شیخ سرہندی مجدد الف ثانی حضرت عبدالرحمان جامی ملنگ باباؒ ، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی ، حضرت سچل سرمست ؒ ، حضرت لعل شہباز قلندر ؒ ، حضرت بہاالدین زکریا ملتانی ؒ ، حضرت شیخ رکن الدین عالم ©ؒ اور ان جیسے بے شمار اللہ والوں کا مسکن ہونے کا شرف اور اعجاز حاصل ہے ۔یہ سب ولی ، غوث ، قطب اور ابدال قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو روحانی علوم کی مشعل کے ذریعے ا للہ کی مخلوق کے قلوب کومنور فرماتے ہیں اور پھر مرکز معرفت مولا علی مشکل کشاؓ کے دربار تک پہنچا دیتے ہیں جہاں سے بندہ مومن دربار رسالت ﷺ میں رسائی پاتا ہے ۔
حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاؒ بھی نوع انسانی کا ایک ایسا ہی تابناک اور درخشندہ ستارہ ہیں اور ان جیسی ہستیوں کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ”میں اپنے بعد اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد چھوڑ کر جا رہا ہوں “ ۔ تاج الاولیاءحضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒ (بھارت) کے نام نامی اسم گرامی سے ایک دنیا واقف ہے ۔ سید محمد عظیم برخیا©ؒ نے اٹھارہ سو اٹھانوے میں بھارتی ریاست یو پی کے شہر بلند کے قصبہ خورجہ میں حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒ کی پاکدامن صاحبزادی کے گھر ولادت پائی ۔ ابتدائی تعلیم قصبہ خورجہ سے ہی حاصل کی اور پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انٹر تک تعلیم حاصل کی ۔ اللہ تعالی جن بندوں کو اپنے کاموں کیلئے منتخب کر لیتا ہے پھر ان کی تربیت کا انتظام بھی انوکھے انداز میں فرماتا ہے ۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران ہی سید محمد عظیم برخیاؒ کی طبیعت روحانیت کی طرف مائل ہوئی اور آپ اپنا زیادہ تر وقت مولانا کابلی ؒ کے پاس گزارنے لگے ۔ علی گڑھ سے واپسی پر سید محمد عظیم برخیاؒ اپنے نانا تاج الاولیاءبابا تاج الدین ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ناناکے نورِفراست نے نواسے کے اند ر چھپے شاہسوار ِولایت کو پہچان لیااور اپنے پاس ہی روک لیا ۔ سید محمد عظیم برخیاؒ کے والد محترم کو علم ہوا تو انہوں نے بابا تاج الدین ؒ سے اصرار کیا کہ محمد عظیم کو تعلیم جاری رکھنی چاہیے ۔ تاج الاولیاءنے فرمایا ”اگر اس کو اس سے زیادہ پڑھایا گیا تو یہ میرے کام کا نہیں رہے گا “ ۔ سید محمد عظیم برخیاؒ کے شفیق باپ نے اپنے فرزند سے کہا ” بیٹے تم خود سمجھدار ہو ، جس طرح چاہو اپنا مسقبل تعمیر کرو“ ۔شفیق باپ کے سعید فرزند نے علم ظاہر کے حصول کی بجائے ناناسے علم باطن کے حصول کوترجیح دی۔ سید محمد عظیم برخیاؒ المعروف قلندر بابا اولیائؒ نو برس تک اپنے نانا کی خدمت میں حاضر رہے جنہوں نے ان کی دن رات روحانی تربیت فرمائی اور پھر دلی میں اپنے ایک عقیدت مند کی صاحبزادی سے ان کی شادی کرا دی ۔ تقسیم برصغیر کے بعد حضور قلندر بابا اولیائؒ کراچی تشریف لے آئے ۔کراچی میں کمشنر بحالیات خان بہادر عبدالطیف نے آپ سے درخواست کی کہ آپ درخواست لکھ دیں تاکہ آپ ؒ کو کوئی اچھا سا مکان الاٹ کر دیا جائے لیکن قلندر بابا اولیائؒ نے اس درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی اور لی مارکیٹ کے ایک محلے میں نہایت خستہ اور بوسیدہ کرائے کے مکان میں ہی مقیم رہے ۔ اس دوران رزق حلال کمانے کیلئے لارنس روڈ کے فٹ پاتھ پر الیکٹریشن کا کام کیا اور اس کے علاوہ مختلف رسائل و جرائد میں صحافتی اور ادبی امور سرانجام دیئے ۔اردو ڈان اور رسالہ نقاد میں بھی صحافتی فرائض سرانجام دیئے ۔
انیس سو چھپن میں سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ قطب ارشاد حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ ( ان کا مزار لاہور کے قریب ہنجر وال میں مرجع خلائق ہے ) کراچی تشریف لائے ۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ حاضر خدمت ہوئے اور باادب بیعت کی درخواست پیش کی ۔ حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی ؒ نے رات کے تین بجے طلب فرمایا ۔حضور قلندر بابا اولیائؒ حکم کے مطابق پیش ہوئے تو حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ نے بابا صاحب ؒ کی پیشانی پر تین پھونکیں ماریں اور عالم ارواح سے عرش معلی تک کا مشاہدہ کروایا ۔ حضرت ابو الفیض قلندر سہروردی نے صرف تین ہفتے میںآپ کو قطب ارشاد کا علم عطا کیااور اپنی خلافت بھی عطا کی ۔ حضرت قلندر بابا اولیائؒ کو حسن اخریٰ کا خطاب بطریق اویسیہ دربار رسالت مآب ﷺ سے عطاءہوا جبکہ برخیا آپ کا تخلص ہے ۔ ملائکہ اور عامتہ الناس میں قلندر بابا اولیائؒ کے نام سے مشہو ر ہیں ۔ آپ ؒ کا سلسلہ نصب پانچ واسطوں سے گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری ؓ سے ملتا ہے ۔ آپؒ کی طبعیت میں بلاکی انکساری پائی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ لیٹر پیڈ پر نام چھپوانے کیلئے بابا صاحب سے اجازت طلب کی گئی کہ لیٹر پیڈ پرآپ کا نام حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیاؒ لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے ۔ انوکھا واقعہ ہوایہ ہوا کہ آپ نے لفظ ”سید“ پر دائرہ بناتے ہوئے فرمایا نام کے ساتھ یہ نہ لکھا جائے ۔عرض کیا گیا حضور آپ نجیب الطرفین سید ہیں ، اپنے نام کے ساتھ سید لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں ۔ قلندر بابا اولیاءؒنے فرمایا ” سید لکھنا اس شخص کو زیب دیتا ہے جس کے اندر سیدنا حضور ﷺکچھ تو اوصاف موجود ہوں “ یہ فرمایا اور اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں ۔ روتے روتے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ارشاد فرمایا ” میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا کہ اپنے نام کے ساتھ سید لکھوں “۔حضور قلندر بابا اولیاءسے کئی کرامات سرزد ہوئیں لیکن آپ ؒ کرامات یا خرق عادت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔فرماتے تھے” خرق عادت یا کرامت کا ظہور کوئی اچنبھے کی بات نہیں جب کسی بندے کا شعوری نظام لا شعوری نظام سے خود اختیاری طور پر مغلوب ہو جاتا ہے تو اس سے ایسی باتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جو عام طور سے نہیں ہوتیں اور لوگ انہیں کرامت کے نام سے یاد کرنے لگتے ہیں جو سب بھان متی ہے ۔ روحانی علوم اور روحانیت اس سے بالکل الگ ہے ۔ خرق عادت اور کرامت اپنے اختیار سے بھی ظاہر کی جاتی ہے اور کبھی کبھی غیر اختیاری طور پر بھی سرزد ہو جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جا سکتا ہے “۔
روحانی علوم کی ترویج و اشاعت کیلئے اولیاءاللہ نے سینکڑوں سلاسل (School Of Thought) قائم کئے جو سب کے سب انسان کو اللہ کی معرفت کا سبق دیتے ہیں ۔ جولائی انیس سو ساٹھ میں ابدال حق حضور قلندر بابا اولیائؒ نے بھی سید نا حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں شرف قبولیت کے بعد سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد رکھی ۔سلسلہ عظیمیہ جذب و سلوک دونوں شعبوں پر محیط ہے اوراس کا رنگ قلندری ہے ۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ تکوین کے اعلیٰ مقام صدرالصدور پر فائز ہیں ۔ حضرت ذوالنون مصری ؒ ، حضرت امام موسی کاظم رضاؒ، حضرت ممشاد دینوری ؒ ، حضرت شیخ بہاالحق نقشبند خواجہ باقی باللہ ؒ ، حضرت ابو القاہرؒ ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت بایزید بسطامیؒؒ، حضرت جنید بغدادی ؒ، حضرت نجم الدین کبری ؒ اور حضرت محمد صغریٰ تاج الدین ؒنے حضور اکرم ﷺ کے لاڈلے فرزند حضور قلندر بابا اولیائؒ کو اپنے اپنے سلاسل کا خانوادہ بھی مقرر کیا ۔ اس کے علاوہ حضور قلندر بابا اولیائؒ اکیس سلاسل طریقت کے مربی و مشفی ہیں ۔سلسلہ عظیمیہ کے طالب کو اس کی افتاد طبع کے مطابق روحانی رنگ میں رنگا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں روایتی پیری مریدی ہے نہ جبہ و دستار یا منبر و محراب ۔ اگر کسی طالب یا شاگرد کو در عظیم سے کچھ پانا ہے توطلب علم کیلئے خلوص اور ذوق و شوق کا ہونا کافی ہے ۔ دور جدیدکے تقا ضوں کے عین مطابق سلسلہ عظیمیہ دنیا کا وہ واحد سلسلہ ہے جس کے اغراض و مقاصد تحریری طور پر طے کر دیئے گئے ہیں اور ان پر عمل کرنا سلسلے کے ہر رکن کیلئے لازمی ہے ۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کو محض روٹی کپڑے کے حصول اور آسائش و زیبائش کیلئے ہی پیدا نہیں کیا گیابلکہ اس کی زندگی کا اولین مقصد یہ ہے کہ وہ خود کو پہچانے ۔ محسن انسانیت رحمت العالمینﷺ کا قلبی اور باطنی تعارف حاصل کرے جن کے جود و کرم اور رحمت سے ہم ایک خوش نصیب قوم ہیں اور جن کی تعلیمات سے انحراف کے نتیجے میں ہم دنیا کی بد نصیب اور بد ترین قوم بن چکے ہیں ۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنے وصال سے پہلے آٹھ ماہ تک چوبیس گھنٹے میں صرف ایک پیالی دودھ پر گزارہ کیا ۔ وصال سے تین دن پہلے کھانا پینا چھوڑ دیا ۔ ایک ہفتہ پہلے ارشاد فرمایا ، ” اب میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کا مہمان ہوں “۔ وصال سے تین گھنٹے پہلے اپنے سب سے لاڈلے شاگرد اور سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ اللہ کے دوست خواجہ شمس الدین عظیمیؒ کو طلب فرمایا ۔ ارشاد عالی ہوا ’ مجھ سے مصافحہ کرو‘ ۔ اور پھر کچھ دیر بعد آفتاب ولایت اس عالم خاکی سے کوچ کر گئے۔ ستائیس جنوری انیس سو اناسی حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کا یوم وصال ہے ۔ اٹھائیس جنوری انیس سو اناسی بروز اتوار کو روزنامہ جنگ ، روزنامہ جسارت اور روزنامہ ملت گجراتی نے آپؒ کے وصال کی خبر نمایاں طور پر شائع کی ۔ آپ ؒ کا مزار کراچی میں شادمان کے علاقے سخی حسن میں مرجہ خلائق ہے جہاں ہر برس پاکستان سمیت دنیا بھر سے عقیدت مند آپ ؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔حضورقلندربابا اولیاایک عظیم روحانی سائنسدان تھے،کائناتی فارمولوں پر مشتمل ان کی شہرہ آفاق کتاب ’لوح و قلم‘ ان کے بے پایاں علم کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔کائنات کے خفیہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لئے تفکر ان کا شعار اور ان کی تعلیمات کا بنیادی جز و ہے۔اسی لئے ہر برس چھبیس جنوری کومرکزی مراقبہ ہال کراچی میں ایک عالمی روحانی ورکشاپ منعقد ہوتی ہے جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے شرکا قرآن یا حدیث کے کسی عنوان کے روحانی پہلوو¿ں پر تفکر کرتے ہیں ۔ ستائیس جنوری کو دنیا بھر کے زائرین حضور قلند ر با با اولیاؒ کے مزار پر قرآن خوانی کرتے ہیں اور اسی شب نماز عشاءکے بعد خانوادہ سلسلہ عظیمیہ ،اللہ کے دوست ،حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی دنیا بھر سے آئے ہوئے عقیدت مندوں کو اپنی ذات اور عرفان الہی کیلئے حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تعلیمات پر عمل کرنے کا درس دیتے ہیں ۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے نہ صرف اپنے مرشد کی زندگی میں بلکہ ان کے وصال کے بعد بھی ان کی خدمت کا حق اد اکردیا۔ آج بھی پیرانہ سالی کے باوجود وہ اپنے مرشد کے مشن کی ترویج و اشاعت اور فروغ میں دن رات مصروف رہتے ہیں ۔انسان کو حقیقی سکون سے آشنا کرانے کے لئے عظیمی صاحب کی خدمات بے مثال ہیں۔آپ نے کراچی میں مرکزی مراقبہ ہال کے تعمیر کے علاوہ پاکستان کے تمام بڑے شہروںکے علاوہ امریکہ ،کینیڈا،روس ،عرب اور یورپی ملکوں میں بھی مراقبہ ہالز قائم کئے ہیں جہاں روحانی علوم کے متلاشی اپنے من کی مراد پاتے ہیں ۔عظیمی صاحب کی شخصیت کا انوکھا پہلو یہ ہے کہ آپ نے سکول یا کالج کی روایتی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی لیکن علم حضوری کا اعجاز ہے کہ روحانی اسرارورموز کے بارے میں پچاس سے زائد کتب تحریر کر چکے ہیں ۔آپ کی تحریر کی گئی کتب پاکستان اور بیرون پاکستان کی جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہیں ۔عظیمی صاحب نے سیرت نبوی ﷺ پر بھی کتب تحریر فرمائی ہیں اورسیرت کی کتب کے سلسلہ میں سے ایک کتاب میں تاریخ میں پہلی بار حضور اکرم ﷺ کے معجزات کی سائنسی تشریح بھی کی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضور اکرم ﷺ کے معجزات کی سائنسی تشریح کر کے عظیمی صاحب نے اسلام کی جو خدمت کی ہے اس کا کوئی جواب نہیں ۔آپ کی تحریر کی گئی کتب کے دوسری کئی زبانوں میں بھی تراجم کئے جا چکے ہیں۔روحانی ڈائجسٹ اور قلندر شعور کے نام سے دو ماہانہ رسالے بھی آپ کی سرپرستی میں روحانی علوم کے متلاشیوں کے پسندیدہ جریدے ہیں۔ عظیمی صاحب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے ہیں تو کلام الہی کے الفاظ معانی سمیت دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔عظیمی صاحب اب تک لاکھوں مریضوں کو بلامعاوضہ روحانی علاج کی خدمت فراہم کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی کسی رکاوٹ کے بغیر جاری وساری ہے ۔میری دعا ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر عظیمی صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ عمر خضر عطافرمائے اور ان کے تربیت یافتہ شاگرد معاشرے میں سکون کی دولت بانٹتے رہیں ۔ کیونکہ اس معاشرے میں عظیمی صاحب جیسی عظیم ہستیوں کی جتنی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments