گیس بلوں میں بےپناہ اضافے سے پاکستانی عوام بے حال


گیس کا بِل

حکومت نے گزشتہ برس گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں اضافے کا اعلان کیا

ایک مزاح نگار لکھتے ہیں کہ ایک بار وہ گیس کا بِل زیادہ آنے پر شکایت کے لیے گئے اور عملے سے کہا کہ میرا کنکشن چیک کر لیں، مجھے لگتا ہے کہ دوزخ کو بھی میرے گھر سے گیس سپلائی ہو رہی ہے!’ عملے نے بہرحال ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ بھائی جو بھی ہے، بِل تو یہی ہے اور اسی وقت بھرنا پڑے گا’۔

خوش قسمتی سے ہمارے وزیرِ پٹرولیم اُس عملے جیسے سخت مزاج نہیں۔ انھوں نے شکایت کرنے والے صارفین کے لیے کچھ نرمی کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ جن کا بِل زیادہ ہے وہ اقساط میں جمع کرا دے۔ یہی نہیں انھوں نے عوام کو گیزر کی بجائے چولہے پر پانی گرم کرنے کا مفت مشورہ بھی دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ مملکتِ پاکستان میں چولہا ضرورت جبکہ گیزر ایک ’عیاشی‘ ہے۔

مزید پڑھیے

’بل زیادہ اور بجلی کم، ہر طرف ہے گیس بند‘

اخراجات بڑھ رہے ہیں، تنخواہ نہیں۔۔۔

’پنجاب میں سیاسی بنیادوں پر گیس کنکشن دیے جا رہے ہیں‘

کراچی میں لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار کون ؟

تحریکِ انصاف کی حکومت نے گذشتہ برس اکتوبر سے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں دس سے 143 فیصد تک اضافہ کیا تھا۔

اس کا اثر رواں ماہ صارفین کو دیکھنے کو ملا ہے کیونکہ وہ صارفین جن کا موسم سرما میں گیس کا بِل تین ہزار سے تجاوز نہیں کرتا تھا، اب ہاتھ میں تیس، تیس ہزار کا بِل تھامے حیران و پریشان ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔

اس صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان نے بلوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر پٹرولیم اس معاملے کی انکوائری کریں اور ساتھ ہی انہوں نے عوام پر گیس کی قیمتوں کا اضافی بوجھ ڈالنے کو ‘غیر مناسب’ قرار دیا ہے۔

راولپنڈی کے رہائشی محمد اکبر کہتے ہیں کہ ان کا ماہانہ بِل صرف تین سو روپے آتا تھا۔ اس بار تین ہزار روپے آیا ہے، ‘میں بِل جمع کرانے گیا اور عملے سے کہا کہ برائے مہربانی دوبارہ چیک کر لیں، مجھے لگتا ہے ایک صفر غلطی سے لکھا گیا ہے’، لیکن عملے نے کہا کہ میٹر ریڈنگ کی تصویر لگی ہے ، جتنے یونٹ استعمال ہوئے یہ انھی کا بِل ہے’۔

اکبر کہتے ہیں کہ ’گیس دن بھر نہیں ہوتی، رات کے پچھلے پہر سوئی گیس آتی ہے اور کھانا پکایا جاتا ہے، لیکن حکومت نے عوام پر یہ مہنگائی کا بم گرا دیا ہے جس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی’۔

سماجی روابط کی ویب سائٹس پر بھی گیس کے بلوں کے معاملے پر خاصی بحث جاری ہے۔ گھریلو صارفین اپنے بِل شیئر کر رہے ہیں اور کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کے بِل ایک لاکھ سے زائد ہیں۔

ٹوئٹر پر ایک صارف طارق مہر نے کہا کہ ان کا سوئی گیس کا بِل ان کے مکان کے کرائے سے زیادہ آیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘میں تبدیلی کا بہت بڑا حمایتی ہوں، لیکن اِس قسم کی تبدیلی کا نہیں’۔

گیس

سردی کے موسم میں قدرتی گیس اور بجلی کی عدم فراہمی کا شکوہ بہت سے شہریوں کی زباں پر ہے

کیا گھریلو صارفین کو کمرشل پریشر دیا گیا؟

وزارتِ پٹرولیم نے اِن خبروں کی تردید کی ہے کہ گھریلو صارفین کو کمرشل پریشر پر گیس فراہم کی گئی جس کی وجہ سے انھیں خبر تو نہ ہوئی مگر گیس کے یونٹ تیزی سے گرتے رہے۔

ترجمان وزارتِ پٹرولیم شیر افگن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ گھریلو صارفین کے لیے ‘ڈسٹری بیوشن لائن ایک انچ کی بھی نہیں ہوتی اور اس کی پریشر گنجائش انتہائی معمولی یعنی ایک بار تک ہی ہوتی ہے، اس لیے زیادہ پریشر تکنیکی لحاظ سے ہی ممکن نہیں ہے’۔

ترجمان کے مطابق ‘پری پیڈ میٹرز کی دستیابی کی تجویز زیرِ غور ہے، تاکہ صارفین موبائل فون کی طرح پہلے سے ہی اپنی استطاعت کے مطابق بِل جمع کرا دیں اور اس حد سے تجاوز کرتے وقت انہیں علم ہو کہ اب گیس زیادہ استعمال ہو رہی ہے’۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ‘کم گیس استعمال کرنے والے صارفین کو پہلے ہی گیس کی قیمت پر سبسڈی حاصل ہے، اس لیے ان بِلوں کی ادائیگی من و عن کی جائے گی اور ان میں کسی قسم کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے بعد ہی پتا چلے گا کہ ‘آیا یہ اضافہ گیس کا استعمال زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے یا قیمتوں میں اضافےکا اثر ہے’۔

گیس کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟

حکومت نے گزشتہ برس گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں اضافے کا اعلان کیا، یہ اضافہ کیوبک میٹر گیس کے استعمال کی گروہ بندی کرتے ہوئے کیا گیا تھا:

گیس کا بِل

گیس کا بل زیادہ آنے پر عوام بے حال

نئی قیمت کے مطابق پچاس کیوبک میٹر گیس پر دس فیصد اضافہ کیا گیا جس سے گیس کی قیمت 252 روپے سے بڑھ کر275 روپے ہو گئی۔

  • 100 کیوبک میٹر گیس کے استعمال پر 15 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے گیس کی قیمت 480 روپے سے بڑھ کر551 روپے ہو گئی۔
  • 200 کیوبک میٹر گیس پر 20 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے گیس کی قیمت 1851 روپے سے بڑھ کر2216 روپے ہو گئی۔
  • 300 کیوبک میٹر گیس پر 25 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے گیس کی قیمت 2764روپے سے بڑھ کر3449 روپے ہو گئی۔
  • 400 کیوبک میٹر گیس پر 30 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے گیس کی قیمت 9990 روپے سے بڑھ کر12980 روپے ہو گئی۔
  • 500 اور اس سے زائد کیوبک میٹر گیس پر 143 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے گیس کی قیمت 12482 روپے سے بڑھ کر36402روپے ہو گئی۔

بلوں میں 143 فیصد اضافے کی وجہ کیا ہے؟

وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور کا کہنا ہے کہ گیس کمپنیوں کو خسارے سے نکالنے کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

انھوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ گذشتہ حکومت کے دور میں گیس مہنگے داموں خرید کر سستے داموں فروخت کی گئی جس سے قومی خزانے کو سالانہ154 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ جبکہ ہر سال پچاس ارب روپے مالیت کی گیس چوری ہوتی ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ موسم سرما کے دوران گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور زیادہ گیس استعمال کرنے پر صارفین کو بھاری بل موصول ہوئے ہیں۔

غلام سرور خان نے کہا کہ گیس کے صارفین کو ریلیف کی فراہمی کیلئے بیس ہزار سے زائد بل والے صارفین کو بل چار قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

لیکن تنخواہ دار طبقے کا بوجھ چار اقساط بھی کم نہیں کر سکتیں۔

اسلام آباد کے رہائشی ایک صارف غلام فاروق نے بی بی سی سے بات کی اور اپنا بِل دکھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال دسمبر میں کم و بیش اتنے ہی یونٹ استعمال کیے اور بل تقریبا تین ہزار تھا، اب کی بار اتنے ہی استعمال پر بِل 25 ہزار آیا ہے، یہ ظلم ہے!’۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp