یوم یکجہتی کشمیر و عالمی برادری


یومِ یکجہتی کشمیر گذشتہ 28 برس سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں مقیم پاکستانی و کشمیریوں سمیت مسلمانانِ عالم یوم یکجہتی کشمیر مناتے اور اقوا م عالم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آزادی کے لیے 7 دہائیوں سے برسرِجدو جہد کشمیریوں کو آزادی کی منزل ملنی چاہیے وہیں قربانیوں کی اَن گنت داستانیں رقم کرنے والے مظلوم، محکموم و مجبور کشمیریوں کو پیغامِ یکجہتی بھی دیا جاتا ہے کہ اِن کی جد وجہد آزادی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کی سیاسی، سفارتی، اخلاقی حمایت و مدد جاری رکھیں گے۔

کشمیری گذشتہ سات دہائیوں سے بھارت کے پنجہ استبداد سے چھٹکارے کے لیے عملی جد وجہد میں مصروف ہیں۔ آزادی کی اس جد وجہد میں کشمیریوں نے لاکھوں جانیں قربان کیں، مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں گھرانے جلائے گئے، ہزاروں ماؤں نے اپنے لخت جگر، بہنوں نے اپنے جوان بھائی اور بوڑھوں نے اپنے سہاروں کو آزادی کی اس بے مثال جد جہد میں قربان کیا۔ آزادی کشمیر کی جد وجہد جہاں عملی محاذ پر کشمیر کے اندر جاری ہے وہیں پر کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی محاذ پر دنیا بھر میں حمایت کی اشد ضرورت تھی۔

1990 ء کی دہائی کے آخر میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے اِس ضرورت کے پیش نظر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یوم منانے کا اعلان کیا اور حکومت سے بھی سرکاری سطح پر یہ یومِ یکجہتی منانے کی اپیل کی۔ پاکستان کی اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیربھٹو اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف نے قاضی حسین احمدؒ مرحوم کے اس مطالبہ پر ”یومِ یکجہتی کشمیر“ ملک بھر میں سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کیا۔

اس وقت سے آج تک تسلسل کے ساتھ یہ روایت جاری ہے بلکہ پاکستان سے باہر یکجہتی کشمیر پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ آج کے دن برطانیہ، امریکہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں موجود پاکستانی اور ان کی اپیل پر مسلمانانِ عالم اس دن کو کشمیری مظلوم بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں۔ بھارت نے کئی دہائیوں سے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ ہزاروں جوان بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی، ماؤں و بہنوں کے سامنے ان کے لخت جگر چھین لیے گئے۔

آج بھی بھارت و مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں ہزاروں بے گناہ کشمیری نوجوان قید میں بھارتی ظلم کا شکار ہیں۔ ہزاروں جوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر غائب کر دیا گیا ہے۔ حالیہ چند برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں گمنام قبرستان دریافت ہوئے ایک ایک قبرستان میں ہزاروں گمنام قبریں ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں اور انہیں کس جرم میں مارا گیا دنیا اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ کشمیری 69 برس سے دنیائے عالم کے تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔

اِس جدو جہد کے نتیجہ میں بھارت جو دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے کی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں نے ناقابل بیان ظلم و ستم سہا اور آج تک کشمیری اس چکی میں پسے چلے جا رہے ہیں۔ اقوام عالم سمیت دنیا بھر میں جمہوریت کے دعویدار انسانی حقوق کے بھی علمبردار ہیں اور ان کی تیار اور پالش کردہ تنظیمیں اور این جی اوز دنیا میں متحرک ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی ظلم، غیر انسانی رویہ اور سلوک کی خبر سامنے آئے تو انسانی حقوق کے علمبرداروں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں اور وہ احتجاج سمیت قابل عمل اقدامات اٹھاتے ہیں جس کے نتائج بھی فوری دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اقوام متحدہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں انسانی حقوق کی نام نہادمہم میں سب سے نمایاں ہیں مگر جہاں بھی مسلم امہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں وہیں انسانی حقوق کے یہ علمبردار خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر اور دیگر عالمی طاقتوں کو مسلم ممالک میں شرمناک حد تک نہ بیان کیے جانے والے غیر انسانی ظلم و ستم ڈہانے کی کھلی چھٹی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کسی بھی انسانی حقوق کے نام نہادکھڑپینچکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔

اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کی قرار دادیں منظور کیں لیکن اس وقت تک دنیا کا یہ بڑا فورم متعصب عالمی طاقتوں کے دباؤ پر اپنی ہی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر ہے اور بظاہر چند طاقتوں کی لونڈی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان، اور سکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں انسانی حقوق کی علمبردار نہیں بلکہ متعصب اور دوہرے معیار کی علمبردار ہیں۔

مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو حقَ خود ارادیت مل سکتا ہے اور وہ آزادی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں تو 7 دہائیوں سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور ظلم کاشکار کشمیری کیوں نہیں؟ کیا کشمیر میں بسنے والے انسان نہیں؟ کشمیر کے لاکھوں بے گناہ شہداء جن کو بے دردی سے شہید کیا گیا کیا وہ انسانی رویہ کے حق دار نہیں؟ کشمیریوں کے قاتل بھارت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے اور ناجائز قبضہ پر قدغن کیوں نہیں لگائی جا سکتی۔

کشمیریوں پر بدترین، شرمناک اور ناقابل بیان مظالم پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کے ہونٹ کیوں سِل جاتے ہیں؟ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر کو بے وقوف بنانے والی این جی اوز اور عالمی ادارے تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان اداروں اور طاقتوں کے نزدیک انسانی حقوق تعصب، امتیازی سلوک اور شرمناک دوہرے معیار کا نام ہے۔

یوم یکجہتی کشمیر کا تقاضا بھی ہے اور پاکستان سمیت ملت اسلامیہ پر ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ کشمیر جیسے مسئلہ کو عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بنایا جائے۔ سفارتی محاذ پر کام کرنے والے فورمز اور تنظیموں کو مضبوط کیا جائے۔ مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا بڑا حل طلب مسئلہ ہے۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی مؤثر اندازمیں ترتیب دیتے ہوئے دنیا بھر میں اپنے سفارتکاروں کو متحرک کر کے کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کر نے کے لیے غیر معمولی اقدمات اور حقیقی وکیل کا کردار نبھانا ہو گا۔

مسئلہ کشمیر کو صحیح معنوں میں عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بھی بنانا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے عظیم حریت پسندوں کو بھی یہ پیغام دینا ہو گا کہ پاکستان حقیقی معنوں میں کشمیریوں کا پشتیبان ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر میں تحریک کی قیادت کرنے والے قائد سید علی گیلانی، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ کو لازوال جدو جہد آزادی پر خراج تحسین پیش کرنے کا بھی موقع ہے جنہوں نے بدترین ظلم، جبر، قید وبند، سنگینیوں کے سائے میں جدو جہد آزادی جاری رکھی اور ان کے پایہ استقامت میں ذرا بھر لغزش نہ آئی۔

دوسری جانب آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کو گذشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار کے حصول کا ریس کیمپ بنا دیا گیا ہے۔ جذبہ حریت سے عاری، سیاسی مصلحتوں کے پیرو کار اورمسئلہ کشمیر کی معلومات سے بے خبر حکمران آزاد خطہ پر مسلط ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر جہاں جذبہ حریت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے وہیں پر آزادی کے اس بیس کیمپ کو حقیقی معنوں میں اقتدار کی رسہ کشی سے نکال کر تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنانے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کشمیریوں کے اس مسلمہ فورم کی طرف سے قوی انداز میں اٹھایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).