کیا ریفرینڈم حقیقی جمہوری عمل ہے؟


 

برطانیہ آج بریگزٹ کے جس عذاب میں مبتلا ہے اس کی بنیادی وجہ ریفرینڈم ہے جو جون 2016 میں ہوا تھا اور جس میں 51.9 فیصد ووٹروں نے یورپ سے علحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اب ڈھائی سال کے بعد بھی عوام کے اس فیصلہ کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے، نتیجہ یہ کہ ایک طرف حکمران ٹوری پارٹی شدید پھوٹ سے دوچار ہے اور حزب مخالف لیبر پارٹی میں بھی اندرونی بغاوت بھڑک رہی ہے۔ غرض اس وقت برطانیہ اپنی تاریخ کے سنگین بحران سے گزر رہا ہے اور غیر یقینی صورت حال کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تباہی کے جانب بڑھ رہا ہے۔

اس موقع پر برطانیہ کے سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال تیزی سے ابھر رہا ہے کہ آیا ریفرینڈم حقیقی معنوں میں جمہوری عمل ہے اور اس میں ملک کو درپیش مسایل کا قابل عمل حل مضمر ہے؟ بہت سے لوگ جنہوں نے 2016 کے ریفرینڈم میں یورپ سے علحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا اب جب کہ ان پر پچھلے ڈھائی سال میں بریگزٹ کے تباہ کن مضمرات آشکار ہوئے ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ موجودہ تعطل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں فوری عام انتخابات کرائے جائیں۔

ان کی رائے ہے کہ 2016 کے ریفرینڈم میں بریگزٹ کے ممکنہ نتایج پر بھر پور بحث نہیں ہوئی تھی اس وقت جذباتی آتش فشاں پھٹ پڑا تھا اور عوام کو ڈرایا جا رہا تھا کہ اگر برطانیہ یورپ سے الگ نہ ہوا تو یورپ کے شہریوں کی آزادانہ آمدورفت کے علاوہ یورپ میں افریقہ، مشرق وسطی سے آنے والے پناہ گزینوں اور ترکی کے مسلمانوں کا سیلاب برطانیہ میں امڈ آئے گا اور برطانیہ اپنا تشخص کھو بیٹھے گا اور بڑی تعداد میں برطانوی شہری روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔

بہت سے نسل پرستوں نے اس بات پر بھی شور مچایا کہ برطانیہ برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر کے قوانین اور قواعد کی وجہ سے اپنی خودمختاری کھو بیٹھا ہے اور اس کی عدلیہ، یورپی عدالت کے سامنے بے اثر ہو کر رہ گئی ہے۔ یوں اس جذباتی ماحول میں عوام کو یورپ سے علحدگی کے مضمرات اور نتایج کے تمام پہلوں پر غو ر کرنے اور ان پر بحث کرنے کا موقع نہیں ملا اور ان سے ہاں یا نا میں فیصلہ کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کم زور حکومتیں عوام کے بعض بااثر حلقوں کے دباؤ میں آکر ریفرینڈم کے انعقاد کے فیصلہ پر مجبور ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو نسل پرستوں کے دباؤ میں اپنی ٹوری پارٹی کے دو لخت ہونے کا خطرہ تھا جس سے بچنے کے لئے انہوں نے 2016 کے ریفرینڈم کا متنازع فیصلہ کیا اور ہار گئے۔ عام طور پر ریفرینڈم کا سوال بھی حکومتیں اپنے مقصد کے مطابق طے کرتی ہیں۔ جیسے کہ دسمبر 1984 میں پاکستان میں جنرل ضیا کے ریفرینڈم میں سوال تھا کہ آیا عوام ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حق میں ہیں اورکیا اس مقصد کے لئے اگلے پانچ سال کے لئے جنرل ضیا کو برسراقتدار کھا جائے؟ اس سوال کا مقصد اگلے پانچ سال کے لئے جنرل ضیا کو صدر کے عہدے پر برقرار رکھنے کی منظوری حاصل کرنا تھا۔

ہٹلر اور مسولینی کے دور میں حکومت کے پہلے سے کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کی منظوری کے لئے اس نوعیت کے ریفرینڈم عام تھے اس کے مقابلہ میں ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد بادشاہت کے خاتمہ کے لئے جو ریفرینڈم ہوا اس میں سیدھا سادا سوال کیا گیا تھا کہ آیا عوام ملک میں اسلامی جمہوریہ قایم کرنے کے حق میں ہیں؟ 98 فی صد عوام نے اسلامی جمہوریہ کے قیا م کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پارلیمنٹ میں منتخب نمایندوں کے فیصلوں کی جگہ براہ راست عوامی جمہوریت کے نام پر ریفرینڈم کی روایت، سولہویں صدی میں سویزرلینڈ سے شروع ہوئی تھی۔

انداز وہی ہے۔ حکومت فیصلہ کر کے اس پر ریفرینڈم کے ذریعہ منظوری حاصل کرتی ہے۔ اٹھارویں صدی سے اب تک سویزر لینڈ میں 600 ریفرینڈم ہو چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ریفرینڈم میں سوال تھا آیا مساجد کے بلند میناروں کی اجازت ہونی چاہیے۔ مقصد اس کا واضح تھا کہ مساجد کے بلند میناروں کی ممانعت کی منظوری حاصل کرنا تھا۔

سویزرلینڈ کی دیکھا دیکھی اٹلی میں بھی ریفرینڈم کا سلسلہ مقبول ہوا خاص طور پر مسولینی کے دور میں۔ اب تک اٹلی میں گذشتہ 80 سال میں 72 ریفرینڈم ہو چکے ہیں۔

ریفرینڈم کے لئے استصواب رائے کا بھی طریقہ استعمال ہوتا ہے

لیکن مختلف ملکوں میں مختلف معنوں میں۔ آسٹریلیا میں ریفرینڈم صرف آئین میں ترمیم کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ دوسرے مسایل کے لئے استصواب رائے ہوتا ہے۔ بعض ملکوں میں ریفرینڈم کا فیصلہ لازمی طور پر پابند عمل ہوتا ہے اور بعض ملکوں میں ریفرینڈم کا فیصلہ محض مشاورتی ہوتا ہے۔

ملایشیا واحد ملک ہے جہاں آئین کے تحت ریفرینڈم ممنوع ہے۔

برطانیہ میں بیسویں صدی کے آخر تک، ریفرینڈم، غیر آئینی قرار دیا جاتا تھاْ۔ 2016 تک برطانیہ میں 3 ریفرنڈم ہوئے تھے۔ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے پہلا ریفرنڈم طریقہ انتخاب کے بارے میں تھا کہ آیا متناسب نمایندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوں۔ عوام نے 67 فی صد ووٹ سے متناسب نمایندگی کا طریقہ مسترد کر دیا تھا۔ دوسرا ریفرینڈم 1974 میں یورپی مشترکہ منڈی میں شمولیت کے سوال پر ہوا تھا جس میں بھاری اکثریت میں عوام نے یورپی منڈی میں شمولیت کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ تیسرا ریفرنڈم اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے سوال پر 2014 میں ہوا تھا جس میں اکثریت نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ چوتھا ریفرینڈم 2016 میں ہوا تھا جس میں اکثریت نے یورپ سے علحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگلستان، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئیرلینڈ میں علاقائی ریفرینڈم ہو چکے ہیں۔

دیکھنے میں تو لگتا ہے کہ ریفرینڈم اس معنوں میں راست جمہوری عمل ہے کہ اس میں عوام کو کسی ایک سوال کے بارے میں فیصلہ کا اختیار ہوتا ہے لیکن نمایندہ پارلیمانی جمہوریت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حقیقی معنوں میں ریفرینڈم جمہوری عمل نہیں کیونکہ عوام اپنے نمایندے منتخب کر کے پارلیمنٹ میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ یہ کسی مسئلہ کا بخوبی جایزہ لے کر اس کے بارے میں صائب فیصلہ کرسکیں۔ ریفرینڈم میں عوام کو کسی مسئلہ کے تمام پہلووں پر غور کا موقع نہیں ملتا۔ یہی صورت حال 2016 کے ریفرینڈم میں پیش آئی اور یورپ سے علیحدگی کے نتایج اور مضمرات پر بھرپور طور پر غور نہیں کیا گیا اور عوام نے جذبات کی رو میں جو فیصلہ کیا اس کا عذاب ملک پر طاری ہے اور عوام اور صنعت و تجارت غیر یقینی کی وجہ سے بد حالی کا شکار ہے اور مستقبل بری طرح سے تاریکی کے نرغے میں ہے۔

 

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani