چرسی ڈاکٹر


”ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب! میری تھوڑی سی۔ “

میں روز ہسپتال پیدل جاتا ہوں۔ قریب ہی ہے۔ بڑی سڑک پار کر کے، سامنے پرانی گلی میں دائیں طرف موڑ کر، چوک سے گزر کر ہسپتال پہنچ جاتا ہوں۔ کئی مہینوں سے میں اسی ایک راستے سے گزرتا ہوں تو گلی میں ایک بڑے بالوں، عجیب سا ڈراؤنی شکل، کمزور، گندے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص، جس کی عمر کوئی تیس بتیس سال ہوگی اس کے ساتھ ایک کتا، سگریٹ کی کچھ ڈبیا اور سیمنٹ کی کچھ خالی بوریاں ہوتی جن کو شاید وہ رات کے وقت سونے کے لیے استعمال کرتا تھا۔

میں گلی میں جیسے ہی داخل ہوتا تو دور سے میری اس پہ نظر پڑتی اور میرے دل میں ایک الجھن پیدا ہو جاتی کہ اب پھر یہ آواز دے گا۔ میں دعا کرتا تھا کہ وہ گلی میں موجود نہ ہو یا سویا ہو تاکہ میں خاموشی سے چلا جاؤں۔ مجھے اکثر محسوس ہوتا کہ جیسے میرے آنے کے انتظار میں ہوتا تھا۔ میں اس کو گلی میں نظر آتا تو وہ مسکرانے لگتا تھا۔ مجھے ڈر اور الجھن کی وجہ سے اکثر اس کی مسکراہٹ اداس کر جاتا تھا۔ میں جیسے ہی اس کے قریب پہنچنے لگتا تو رفتار کو بڑھا دیا کرتا تھا کہ جلدی گزر جاؤں۔ گلی میں چونکہ خاموشی کی وجہ سے مجھے اس سے ڈر بھی لگتا تھا کہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ اس لیے جلدی نکلنے کی کوشش کرتا تھا اور وہ روز پیچھے سے آواز دیتا تھا ”ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب! تھوڑی سی۔ “ بس میں اتنی بات سن پاتا اور باقی جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی نکل جاتا۔

میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ وہ بس یہی کہتا ہو گا کہ تھوڑی سی مدد کرو وغیرہ وغیرہ جو اس طرح کے لوگوں کے مشہور جملے ہوتے ہیں۔

ایک دن ادھر سے گزرتے ہوئے میرا قلم ہاتھ سے گر گیا۔ میں ذرا آہستہ ہوا تو اس نے آواز دی ”ڈاکٹر صاحب تھوڑی سی میری بات سن لیں“

میں نے کہا ”جی بھائی بتائیں“۔

تو وہ کہنے لگا ”ڈاکٹر صاحب! کیا آپ مجھ سے تھوڑی دیر کے لیے بات کر سکتے ہیں۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے بس۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں مانگنا۔

میں نے کہا ”اچھا ٹھیک ہے میں آپ سے واپسی پہ بات کرتا ہوں“۔

ہسپتال سے واپسی پر وہ ادھر مجھے گلی میں نظر آیا۔ اس نے میرے بیٹھنے کے لئے اینٹوں سے ایک جگہ بنائی تھی اور اس پہ ایک کپڑا رکھا تھا۔ مجھے کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب! یہ جگہ اپ کے لیے شاید مناسب تو نہیں لیکن میں بس تھوڑی دیر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں ”۔ میں نے کہا“ جی بتائیں ”۔

کہنے لگا ”میں بھی ڈاکٹر ہوتا اگر نشہ نہ کرتا“

میں نے کہا جی جو بھی محنت کرتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔ ”۔

تو کہنے لگا ”نہیں، ڈاکٹر صاحب! آپ میری بات سمجھے نہیں۔ میں نے میٹرک اور بارہویں جماعت کے امتحانات نمایاں نمبروں سے پاس کیے تھے اور پھر میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ ابو اس بات پہ راضی نہیں تھے کہ میں گاؤں چھوڑ کر شہر چلا جاؤں۔ ایک تو ان کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والا کوئی نہیں تھا اور دوسری بات یہ کہ وہ میرے تعلیم کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے لیکن امی اور بہن کی ضد تھی کہ میں بھی ڈاکٹر بن جاؤں اور ان کے خواب پورے کروں۔

امی اور بہن نے اپنا زیور بیچ دیا اور میرے لیے پیسوں کا بندوبست کر دیا۔ میں ایک سال میڈیکل کالج میں ٹھیک رہا لیکن پھر بس کچھ امتحانات کی پریشانیاں اور کچھ دوستوں کا ساتھ ایسا تھا کہ پہلے سگریٹ، پھر چرس اور پھر ایک سے بڑھ کر ایک نشہ شروع کیا۔ گھر سے کالج فیس وغیرہ کے لیے جو پیسے آتے تو بس ان چیزوں پہ خرچ کرتا۔ رات کو ہم جگتے رہتے اور کالج کے اوقات میں سوتے رہتے۔ وقت گزرتا گیا۔ کالج میں میرے کئی سال ہوگئے، ہر سال میں فیل ہوتا رہا۔

میں پڑھائی میں آگے تو نہ بڑھ سکا لیکن نشہ آور چیزوں کے استعمال میں بڑھتا گیا۔ آخرکار مجھے کالج سے نکال دیا گیا۔ امی، ابو اور بہن کو بھی پتہ چل گیا۔ میں نے ان کے خوابوں کا قتل کیا۔ اب میں بس زندگی کبھی اس گلی میں کبھی اس گلی میں گزارتا ہوں۔ یہ کتا اچھا ہے، وفادار ہے کہیں نہ کہیں سے کچھ اٹھا کر لے آتا ہے جو ہم مل کر کھا لیتے ہیں۔ کئی مہینوں سے اس گلی رہتا رہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی اور آپ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ آپ کا سفید کوٹ اور صدربین (stethoscope ) دیکھ کر میرے دل میں بھی پرانے زمانے کی باتیں یاد آتی ہیں۔ آج آپ سے بات کر کے بہت خوشی ہوئی ”۔

میں خاموشی سے نجانے کن کن ادس کر جانے والے ایک ناتمام احساسات سے اس کی کہانی سنتے ہوئے گزرتا رہا۔ میں نے کہا ”تو گھر کیوں نہیں جاتا“؟ کہنے لگا ”ڈاکٹر صاحب گھر جانا ممکن نہیں۔ ادھر امی، ابو مجھے نہیں چھوڑیں گے۔

میں نے کہا ”امی، ابو، بہن سب اپنے ہی تو ہیں اور اپنوں کی محبت بے لوث ہوتی ہے۔ بہن کے لیے اصل زیور تو آپ ہیں۔

آپ ان پاس رہو گے تو ان کو اور کیا چاہیے۔ اس چیز سے نکلنے میں آپ کی مدد کروں گا۔ آپ ڈاکٹر نہیں بن سکے تو کیا ہوا؟ ایک اچھا انسان تو بن سکتے ہیں۔ ۔ بس کل ہسپتال میں ڈاکٹر سے آپ کا علاج شروع کروں گا اور ابھی آپ میرے ساتھ چلے کل پھر گاؤں جائیں گے ”۔ وہ میرے ساتھ اس وقت جانے کے لئے راضی تو نہیں ہوا لیکن وہ صبح علاج کرنے اور پھر گاؤں جانے کے لیے راضی تھا۔ میں چلا گیا اور صبح یہ کام کرنے کا میں نے ارادہ کر لیا۔

میں اگلی صبح جیسے ہی پرانی گلی پہنچا تو کتا تیزی سے میری طرف بھاگتا ہوا آیا۔ مجھے کتے کی حرکت کچھ ٹھیک نہیں لگی۔ میں اس جگہ پہنچا تو اس نے میری آواز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جب میں نے اس پہ ہاتھ رکھا تو محسوس ہوا کہ وہ اس دنیا میں نہیں تھا وہ انتقال کر گیا تھا۔

ابھی بھی اس پرانی گلی سے گزرتے ہوئے لگتا ہے کہ اس کی آواز آئی گی ”ڈاکٹر صاحب! میری تھوڑی سی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).