این آر او ہو چکا ہے؟


اب مارشل لاء نہیں لگے گا۔

پریس کلب میں موجود چند صحافیوں نے حیرت زدہ نظروں سے دیکھا تو وہ گویا ہوا ”عوام اور دنیا میں فوج پہلے ساکھ کھو چکی ہے، مارشل لائی حکمرانوں کے بارے میں برا تاثر پایا جاتا ہے، اب فوج مزید رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں“

چائے کی چسکی لیتے ہوئے پھر بولا کہ پاکستان کا میڈیا، سوشل میڈیا بہت بڑی رکاوٹ ہے، جس پر آہستہ آہستہ کنٹرول حاصل کیا جا رہا ہے۔

اگر مارشل لاء نہیں تو مچلتی مچھلی پانی کے بغیر کیسے رہ سکتی ہے؟ ہماری سوال بھری نظروں کو بھانپتے ہوئے بولا ”یہ کوئی مسئلہ نہیں، عوامی نمائندے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں، اب کی بار“ یہ ”عدالت کے راستے سے کام لیں گے اور ایک ایسی حکومت لائیں گے جو ان کے اشاروں پر کام کرے گی، ان کو اقتدار کے بغیر ہی وہ حاصل ہوجائے گا جو اقتدار میں رہ کر کرتے رہے ہیں“ یہ باتیں الیکشن 2018 سے پہلے کی ہیں جب تحریک انصاف بھرپور انتخابی مہم چلا رہی تھی اور مسلم لیگ ن کے رہنما ء عدالتوں کے چکر کاٹ رہے تھے، الیکشن ہوا اور عمران خان وزیر اعظم بن کر اقتدار میں آگئے، بے نامی جائیداد کی طرح اس ”بے نام“ صحافی کی کہی گئی باتیں ایک ایک کرکے سچ ہوتی جارہی ہیں، دھند ہٹنے کے بعد منظر صاف ہوتا جارہا ہے۔

ایک بار پھر ملک میں این آر او کی باتیں ہورہی ہیں، پیپلز پارٹی کے رہنما چودھری منظور نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو این آر او مل چکا ہے اب وہ میڈیکل بنیاد پر ضمانت مل جانے کے بعد بیرون ملک چلے جائیں گے، ادھر ایک ٹی وی پروگرام میں وزیراعظم کے معاون خاص افتخار درانی نے گفتگو کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ حکومت عدالت کی گائیڈ لائن کو فالو کررہی ہے، نواز شریف کا صحت کا معاملہ انسانی ہے، اگر عدالت ریلیف دیتی ہے تو حکومت پر عدالتی حکم ماننا فرض ہوجائے گا، یہاں ”بے نام“ صحافی کی باتوں کو سنجیدہ لیا جائے تو پوری گیم سمجھی جا سکتی ہے، نواز شریف کو عدالت کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا، ان کو الیکشن سے بھی اسی راستے سے باہر رکھا گیا، وہ جیل میں گئے تو عدالت کی کھڑکی سے ہو کر گئے اور اب اگر وہ باہر جاتے ہیں تو بھی اسی راستے سے جائیں گے۔ آصف زرداری اور مشرف اس سے قبل ملک سے باہر براستہ ہسپتال گئے تھے اور نواز شریف کے ہسپتال جانے سے بھی ایسی باتیں ہی کی جا رہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا این آر او ہو چکا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں، اچانک تبدیل ہوتے حالات اور حکومتی نمائندوں کے بیانات سے بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نواز شریف کی اچانک صحت بگڑتی ہے، میڈیا پر شور مچتا ہے، مریم نواز کا خاموش ٹوئٹر اکاؤنٹ سانحہ ساہیوال کو پس پشت ڈال کرسابق وزیر اعظم کی صحت کے لئے فکرمند ہو جاتا ہے، میڈیا پر پل پل کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کے بازو میں درد ہے، سانس لینے میں تکلیف ہے، دردناک انداز میں خبریں پیش کی جاتی ہیں، منظر بدلتا ہے اور ان کوسروسز ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے، وہاں ان کو مشترکہ روم میں نہیں بلکہ ایک وی آئی پی کمرے میں منتقل کیا گیا ہے جہاں تمام سہولیات میسر ہیں، ان کی حفاظت کے لئے ایک ڈی ایس پی، انسپکٹرز، سب انسپکٹرز اور 80 پولیس اہلکار تعینات ہیں، سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار اس کے علاوہ ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ دل، گردوں اور شوگر کے مریض نے ہسپتال منتقل ہوتے ہی ادویات کی فرمائش نہیں کی بلکہ سموسے منگوا کر کھائے ہیں۔

ادھر کرپشن کے مقدمات میں جیل جانیوالے شہبازشریف دنیا کی تمام آسائشیں حاصل کر رہے ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، پی اے سی کے چیئرمین اور نیب کے ملزم شہباز شریف کی منسٹرز کالونی میں واقع رہائش کو سب جیل قرار دیا گیا ہے جہاں ان کو پروٹوکول مل رہا ہے، وہاں وی وی آئی پی سکیورٹی تعینات ہے، وہ اجلاسوں میں آتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں، ہنسی مذاق ہوتا ہے، موسم کا لطف بھی اٹھاتے ہیں، ایک عام ملزم تو ایسی سہولیات کا تصور بھی نہیں کرسکتا، ادھر مریم نواز کے ٹوئٹر کی طویل خاموشی اور زبان بندی بھی زلزلے سے پہلے والی خاموشی لگتی ہے۔

سابق وزیر اعظم کے علاج کے لئے چوتھا میڈیکل بورڈ بنایا گیا ہے، جو ان کوعلاج کے لئے بیرون بھیجنے کی سفارش کرسکتا ہے، اس میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر عدالت سے ضمانت بھی مل سکتی ہے، نواز شریف کو ضمانت ملنے پر مریم نواز بھی ان کے ساتھ لندن جا سکتی ہیں، شہباز شریف بھی میڈیکل بنیاد پر ضمانت کروا کر لندن جائیں گے، کچھ عرصہ رہنے کے بعد واپس لوٹ آئیں گے، حمزہ شہباز پہلے ہی عدالت سے اجازت لے کر جا چکے ہیں، این آر او دینے کی اور مضبوط وجوہات میں عمران خان حکومت کے لڑکھڑاتے پاؤں ہیں، تمام کوششوں کے باوجود حکومت سنبھل نہیں پا رہی، نواز شریف کی ملک میں موجودگی کو اسٹیبلشمنٹ خطرہ سمجھ رہی ہے، ہر جمعرات کے دن کوٹ لکھپت جیل کے باہر میلے کا سماں ہوتا ہے، ملاقاتیوں کے بیانات عوام میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا بڑا سبب بن رہے ہیں، اب تو سروسز ہسپتال کے باہر بھی میڈیا ڈی ایس این جیز اور ن لیگی کارکن اپنا جہاں پیدا کیا ہوئے ہیں، نواز شریف جیل میں رہیں، ہسپتال میں یا ملک سے باہر بلا شک وشبہ وہ بھی ملک کی مقبول شخصیت ہیں اور اب تک ملکی سیاست کا محور بھی۔

ادھر سندھ میں وفاقی وزرا کی تمام تر دھمکیوں اور کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہے، آصف زرداری کی دھمکیوں سے خوف زدہ حکومت ان کو گرفتار نہیں کر پا رہی، سندھ میں وفاقی حکومت بیک فٹ پر چلی گئی ہے، جنرل پرویز مشرف کی مارشل لا حکومت کی کامیابی کی بڑی وجہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا ملک سے باہر ہونا تھا، عمران خان کی حکومت کو پانچ سال تک چلانے کا سوچنے والے اسی کوشش میں ہیں کسی طریقے لڑکھڑاتے حکومتی پاؤں مضبوط کیے جائیں۔

2000 ء کے بعد کی سیاست پر نظر ڈالیں تو این آر او ہوا تھا پھر 2007 میں بھی ایسا ہوا تھا، اب کی بار کچھ ایسا ہوا تو پھر کس ملک کے ایما پر ہو گا؟ یہ این آر اوکسی سیاسی جماعت نے کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں کیا تھا، یہ ایک فوجی حکمران نے کیا تھا، اب اگر وزرا کہتے ہیں کہ ہم این آر او نہیں دیں گے تو وہ بے تکی بات کرتے ہیں، جنہوں نے ڈیل کرنی ہے وہ وزرا تو کجا وزیر اعظم تک سے نہیں پوچھیں گے بلکہ ان کو صرف بتائیں گے کہ ہو گیا۔

تحریک انصاف اگر چاہے تو کسی کو این آر او دے نہیں سکتی اور نہ چاہتے ہوئے بھی کسی این آر او سے روک نہیں سکتی، پی ٹی آئی کی قیادت کی تاریخ رہی ہے کہ ہمیشہ شور مچاتی ہے، معاملے کی بلندی پر جاکر ”یوٹرن“ لے لیتی ہے، اس بار بھی ایسا ہوتا نظر آرہا ہے، وزرا کے چہروں پر موجودبے چینی بتاتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے جو ان سے بالا بالا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).