پشتون تحفظ موومنٹ: ’کنٹرولڈ علاقے سے کنٹرولڈ پارلیمان تک‘


گذشتہ برس جولائی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل جب پشتون تحفظ موومنٹ کے دو سرگرم ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر نے وزیرستان سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اس فیصلے پر تنظیم نے انھیں کور کمیٹی سے الگ کر دیا۔

محسن اور علی تنظیم سے الگ کیے جانے کے باوجود اس مقصد سے علیحدہ نہیں ہوئے جس کے لیے یہ تنظیم وجود میں آئی تھی لیکن آج بھی پی ٹی ایم کی قیادت میں پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے دو دھڑے پائے جاتے ہیں جو اس بارے میں بالکل مختلف آرا رکھتے ہیں۔

ایک دھڑا کہتا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان نے انھیں 71 برسں میں کیا دیا جو اب اس سے جواب اور انصاف کی توقع رکھی جا رہی ہے اور دوسرا وہ جو پارلیمانی سیاست کو صرف ترجیح ہی نہیں دیتا بلکہ پی ٹی ایم کی بقا کا ذریعہ مانتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

منظور پشتین کون ہے؟

’منظور پشتین ہمارا اپنا بچہ ہے، ہم انھیں سنیں گے‘

منظور پشتین کے ساتھ تصویر بنوانا غیر قانونی؟

’منفی یا مثبت تصویر پیش کرنا میڈیا کا کام نہیں‘

پشتون تحفظ موومنٹ کو ایک برس مکمل ہونے پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس عرصے میں پی ٹی ایم سے نکل کر پارلیمان جانے والوں نے کیا حاصل کیا اور کیا پارلیمانی سیاست ان کے مسائل حل کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہے؟

اس بارے میں رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پانچ ماہ میں انھیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا ہے کیونکہ وہ ’ایک کنٹرولڈ علاقے سے ایک کنٹرولڈ پارلیمنٹ میں آگئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں حکمران فیصلے پوچھ کر کرتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمیں پاکستان کا سب سے بڑا فورم مل گیا ہے۔ اس سے یہ فرق بھی پڑا ہے کہ پہلے پاکستان کی اکثریت ہمارے مسائل سے بےخبر تھی اور ہمارے علاقے کے مسائل اور اس سے منسلک باتیں ایک مخصوص پلیٹ فارم تک محدود رہتی تھیں، کیونکہ میڈیا بلیک آؤٹ تھا۔ لیکن ایوانِ بالا میں اب ہمارے علاقے کے مسائل اور ان سے جُڑے دکھ پورا پاکستان ُسن سکتا ہے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایک حد تک یہ تسلیم بھی کرلیا گیا ہے کہ ہمارے علاقے میں ظلم اور زیادتی ہوئی ہے اور اس کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے‘۔

علی وزیر اور محسن داوڑ

محسن داوڑ اور علی وزیر کے نام ای سی ایل میں شامل کیے گئے اور پھر کابینہ نے ان کے نام فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیا

تجزیہ کار اور پشتون تحفظ موومنٹ کے ارتقا پر گہری نظر رکھنے والے سابق وفاقی سیکریٹری غلام قادر کے مطابق، پی ٹی ایم کے ارکان نے پارلیمان میں آ کر دیگر قوم پرست جماعتوں کی جگہ لے لی ہے۔

’حالانکہ پی ٹی ایم نے کہا تھا کہ ہم انتخابات نہیں لڑیں گے اس کے باوجود ان کے ہم خیال لوگوں کو قبائلی علاقوں سے کافی حمایت ملی ہے۔ باقی قوم پرست جماعتیں کس منہ سے اِن پر تنقید کر رہی ہیں کیونکہ اُنھیں تو ووٹ ہی نہیں ملے‘۔

ان کے مطابق ’پی ٹی ایم کے نمائندے عوام کی ترجمانی کررہے ہیں اور براہِ راست ریاست کے جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اس لیے مقبول ہیں‘۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ سیاسی تو ان کو ہونا چاہیے۔ ’ڈیمانڈ اور معاملات تو ان کے زیادہ تر سیاسی ہیں لیکن کیا ان کو ایک سیاسی جماعت بنانی چاہیے یا کسی پارٹی کا حصہ ہونا چاہیے اس پر بحث ہو سکتی ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ کامیابی تب ہوگی جب وہ اداروں کے اندر اپنی نمائندگی کو بھرپور بنائیں گے۔ ’میرے خیال میں صوبائی اسمبلیوں کے اندر اور لوکل گورنمنٹ میں جتنا بھرپور پیش ہوں گے اتنا ان کی خواہشات اور مسائل حل ہو پائیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیے

شمالی وزیرستان: وائرل ویڈیو کی گونج پارلیمان میں

’پشتون تحریک کو دشمن قوتیں استعمال کر رہی ہیں‘

’پی ٹی ایم ہماری روح ہے، اس کے بغیر انسان نہیں جی سکتا‘

اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پی ٹی ایم کی اعلٰی قیادت کی نظر میں ان کا کارکن کہاں بہتر ہے، ایوان میں یا ایوان سے باہر؟

پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما منظور پشتین کی رائے میں انھوں نے باضابطہ طور پر پارلیمانی سیاست نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’ہم کسی اور سے نہیں بلکہ ریاست سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ایک قومی تحریک ضروری ہے۔ اگر قومی تحریک بذاتِ خود انتخابات میں آجائے تو اس کا مطلب ہے کہ سب ایک دوسرے کے مخالف ہو جائیں گے۔ ہمارے کارکن بٹ نہ جائیں اس لیے ہم نے پارلیمانی سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

انھوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پارلیمانی سیاست کرنا غلط ہے لیکن ان کی ترجیحات الگ ہیں۔

’ہمارا مسئلہ امن و امان کا ہے، ہمارے وطن پر قبضے کا ہے، یہ سارے مسائل جی ایچ کیو سے منسلک ہیں۔ اس لیے ہم براہِ راست انھی سے حل مانگتے ہیں۔ اگر بعض لوگوں کو اس بات سے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ جی ایچ کیو سے براہ راست حل نہیں مانگنا چاہیے، تو ہمارے پاس رہ کیا گیا ہے کہ ہم ڈریں کسی بات سے؟‘

دوسری جانب، محسن داوڑ کی رائے اس بارے میں بالکل مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مزاحمتی سیاست کو پارلیمنٹ سے الگ نہیں کر سکتے۔ ہم اس خطے کی ہی تاریخ دیکھ لیں تو خدائی خدمت گار تحریک تھی وہ بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہی ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی مزاحمت بھی کرتی رہی ہے آمروں کے خلاف اور پارلیمنٹ کا حصہ بھی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی مثال لے لیں‘۔

پشتین

منظور پشتین نے بتایا کہ جب تنظیم کی سرگرمیاں ہوں گی تو سوشل میڈیا پر موجودگی زیادہ ہوگی

انھوں نے کہا کہ ’بیچ میں ایک خلا بیشک رہا ہے جس میں سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ، اسٹیبلشمنٹ کے حامی لوگ، بہت زیادہ آئے ہیں لیکن یہ جو پارلیمنٹ یرغمال ہے کسی کو تو اسے آزاد کرنا ہے۔ اسے مزاحمتی سوچ رکھنے والے لوگ ہی آزاد کرسکتے ہیں۔ ورنہ اسی طرح ملٹری کورٹس کے لیے اجازت ملتی رہے گی‘۔

منظور پشتین اور محسن داوڑ کی اس مختلف سوچ کو دیکھتے ہوئے تحریک سے وابستہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شاید پی ٹی ایم آنے والے کچھ مہینوں میں ٹوٹ جائے گی۔ کیا یہ تاثر صحیح ہے؟

پشتین کے مطابق لوگوں کو ایسا نہیں لگنا چاہیے کیونکہ اس تحریک کو ان باتوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ ’یہ ایک تاثر ہے، بنیادی طور پر ایسا ہے نہیں۔ یہ تحریک منظور کے آنے جانے سے نہیں ٹوٹے گی، یا کسی کے پارلیمنٹ جانے سے بھی نہیں ٹوٹے گی‘۔

محسن داوڑ نے اس بارے میں کہا کہ پی ٹی ایم کے ٹوٹنے کی خبریں ایک خاص قسم کا پروپیگینڈا ہے۔

’کئی دفعہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بھی مہم چلائی گئی میرے اور منظور کے بارے میں، جس کا ہم نے جواب بھی دیا۔ لیکن میڈیا بھی انھی کے کنٹرول میں ہے اور ہمیں غداری کے ٹھپّوں سے نوازتا رہتا ہے۔ تو یہ بلکل بےبنیاد باتیں ہیں‘۔

پارلیمنٹ میں قانون سازی کے حوالے سے اب تک کیا کر سکے ہیں؟ اس سوال پر محسن داوڑ نے کہا کہ دباؤ بڑھانا ان کا مقصد ہے۔ ’ہم جو سوالات پوچھتے ہیں ان کے جواب ان کو دینے پڑتے ہیں۔ جیسے مسنگ پرسنز پر ہم سوال کرتے ہیں، تو پہلے کسی کو اس بارے میں خبر نہیں ہوتی تھی لیکن اب یہ سوچ بچار کرنے پر مجبور ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے ضربِ عضب پر ہم نے جو سوالات پوچھے ہیں، ان کے جوابات آتے تو نہیں ہیں، لیکن دینے تو پڑیں گے‘۔

پشتون تحفظ موومنٹ

احمد بلال محبوب کے خیال میں پشتون تحفظ موومنٹ کو اب پاکستان کے دیگر لسانی گروہوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے

انھوں نے کہا کہ اب تک پوچھے گیے سوالات پر وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہتے ہیں۔

’قانون سازی کی جب بات آتی ہے تو میرا ایک بِل جبری گمشدگی کے حوالے سے اب تک چار، پانچ دفعہ ایجنڈا پر آچکا ہے لیکن بار بار کسی نہ کسی بات پر ہنگامہ ہوجاتا ہے اور وہ بِل رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عسکریت پسندی اور فوجی آپریشن کے دوران جو بےقاعدگیاں ہوئی ہیں ان پر بھی سوال کرنے ہیں اور لوگوں کو زرِ تلافی کے حوالے سے بھی باتیں ہیں جو پائپ لائن میں ہیں۔ آج نہیں تو کل ان باتوں پر بحث تو ہو گی ہی‘۔

اس بارے میں احمد بلال محبوب نے کہا کہ اس وقت پی ٹی ایم کے ان رہنماؤں سے بہت زیادہ امید رکھنا ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

’ابھی ان کو مشکل سے پانچ ماہ ہوئے ہیں پارلیمنٹ میں آئے ہوئے۔ ابھی ضمنی انتخابات اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو اس میں یہ اگر اپنی بھرپور کارکردگی دکھا سکیں تو ان کے لیے اچھا رہے گا۔ کیونکہ انھیں لوگوں کی حمایت حاصل ہے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے لیے آگے کے لیے پارلیمانی سیاست ایک اچھا راستہ ہے ’لیکن اس کے لیے ایک لسانی تحریک کے بجائے ان کو اب پاکستان کے دیگر لسانی گروہوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ تاکہ ان کا نظریہ محدود ہو کر نہ رہ جائے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp