اس سے پہلے کہ زخم ناسور بن جائیں


ہم پوری ڈھٹائی سے مصر ہیں کہ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا، ہم بار بار انہی راستوں کا انتخاب کیوں کرنے سے باز نہیں آ رہے جن پر چل کر ہم ذلت کی گہری کھائیوں میں پہلے بھی گر چکے ہیں، میں اسے کوئی نام دینے سے قاصر ہوں، بے حسی کہوں، جھوٹی اناؤں کی قید یا پھر مجرمانہ غفلت، بہرحال جو بھی ہے ٹھیک نہیں ہے۔

ارسطو نے کہا تھا ”ریاست خاندانوں اور دیہاتوں کا ایسا مجموعہ ہے جو خوشیوں بھری زندگی حاصل کرنے کے لئے قائم کی جاتی ہے“ محض ارسطو ہی نہیں متعدد علمائے سیاست و معاشرت کا بھی ایسا ہی خیال رہا ہے، خیر اب ریاست محض خاندانوں اور دیہاتوں کا مجموعہ تو نہیں رہی، اس کا دائرہ کار اس سے کہیں آگے پروان چڑھ چکا ہے مگر ”خوشیوں بھری زندگی“ کی فراہمی ریاست کا اولین اور انتہائی مقصد ہے اسے کسی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

جہاں 71 برسوں سے ایک کے بعد ایک دکھ، یوں لگے جیسے قطار بنائے باری کے منتظر ہوں تو پھر بھلے معمولی ہو مگر کہیں اندر ہی اندر دل کے نہاں خانوں میں ہی سہی مگر سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے ابھی کل کے ساہیوال سانحے سے ہی بات شروع کرتے ہیں، کیا کوئی ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا کرتی ہے؟ کہا گیا ایسے واقعات پوری دنیا میں ہوتے رہتے ہیں، چلو یہ بھی مان لیا، ریاست انصاف کرے یا نہ، غم و غصے کا اگر ادراک نہیں کر پائی تو یہ بات خوفناک ہی نہیں خطرناک بھی ہے۔

انصاف ہو گا، نہیں ہو گا ابھی اسی مخمصے میں تھے کہ بلوچستان سے پروفیسر ارمان لونی کے متعلق خبریں ملنا شروع ہوگئیں، پہلا واقع نہیں، ڈر ہے کہ ایسے ان گنت دلخراش واقعات جنہیں ہم معمولی زخم جان کر نظر انداز کرتے جا رہے ہیں کہیں ناسور نہ بن جائیں۔ سانحہ ساہیوال اور ارمان لونی کے قتل پر عوامی ردعمل میں فرق دیکھ کر خوف زدہ ہوں، کیا بلوچستان کا خون پنجاب سے سستا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایک آئین و قانون سے بالا بالا پاکستان کے شہری کے قتل پر خاموشی کیوں؟

میڈیا کے بلیک آؤٹ کی وجہ؟ ایسا شہری جو ایک ایسی تحریک کا متحرک ورکر ہو جو پہلے ہی محرومیوں اور زیادتیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو تو ایسے میں پوری ریاستی مشینری کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بعض حلقوں کی طرف سے پی ٹی ایم پر غیر ملکی سازشوں میں ملوث ہونے یا استعمال ہونے کے دعوے بھی ہوتے رہے ہیں، حقیقت یا افسانہ؟ حکومت عوام کو اعتماد میں لے کر واضح پوزیشن کیوں اختیار نہیں کرتی؟ ترجمان پاک فوج ایک انٹرویو میں تسلیم کر چکے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات غلط نہیں تو پھر مقتدر سیاسی قوتیں چنگاری کے الاؤ بننے کی منتظر کیوں؟

سچ تو یہ ہے بحثیت عام پاکستانی میں خوف زدہ ہوں، لمبی بحث ہے، ہم میں اہلیت نہیں یا جان بوجھ کر تاریخ سے سبق نہیں سیکھا چاہتے؟ خیر بات ہو رہی تھی ارمان لونی کے قتل کی، ورثاء اور اس کے متعلقین کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے اسے تشدد کر کے قتل کیا ہے۔ ایسے میں۔ ریاست نے اب تک کیا کردار نبھایا ہے؟ آئین، قانون، عدالتوں بلکہ فوجی عدالتوں کی موجودگی میں ماورائے عدالت قتل کا اگر کوئی جواز ہے تو حکومت کو ضرور عوام کے سامنے لانا چاہیے۔ اور اگر نہیں ہے تو عوام کو صورت حال، حقائق اور اقدامات سے متعلق اعتماد میں لیا جانا چاہیے کہ اب عدم تحفظ کا احساس کسی خاص علاقے تک مقید نہیں رہے گا، حکومت کو آگے بڑھ کر اس سے پہلے مرہم رکھنا ہو گا کہ زخم ناسور بن جائیں اور اپنے ہی شہریوں کو ریاست پہ اعتماد نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).