سینٹرل چوک


موبائل کی رِنگ ٹون مسلسل بج رہی ہے۔ صبح صبح کون تنگ کر رہا ہے؟

قدموں کی رفتار تیز کرتے ہوئے، گھڑی کی سوئیوں پر نظر دوڑاتا ہوں تو پارہ چڑھنے لگتا ہے۔ نو بج کر سات منٹ ہی تو ہوئے ہیں۔ آدمی ہیں بھائی۔ مشین تھوڑی ہیں۔ ایسی بھی کیا غلامی!

دفتر سے لیٹ ہونے کے نقصانات تو بہت سارے ہیں مثلاً ذلت، شرمندگی وغیرہ۔ فائدہ یہ ہے کہ سکول کی ویگنوں اور بسوں کا رش کم ہوجاتا ہے، راہگیر بھی خال خال ہوتے ہیں، کشادگی کا احساس ملتا ہے، تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی!

ایک مکروہ شکل دھوتی پوش بوڑھا، سڑک کی دائیں سمت سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا، میری جانب لپک رہا ہے۔ کہیں بھیک ہی نہ مانگ لے! چھوٹا سا ایک لڑکا، یہی کوئی سات آٹھ برس کا، سکول کا بستہ پہنے، مجھ سے چند قدم آگے، بہت جلدی میں ہے۔ میں اس کی چال دیکھ کربخوبی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اس نے جہاں کہیں بھی پہنچنا ہوا، اتنی جلدی نہیں پہنچ پائے گا۔ ویسے اگر پہنچ بھی گیا تو کیا کرلے گا؟

خاکی رنگ کی ایک جیپ شوں کرتی، میرے پاس سے گزری ہے اور دھوئیں کا ایک مرغولہ سا چھوڑ گئی ہے۔ آخر اِس دھوئیں سے ہمارا کیا رشتہ ہے؟ اسے ہمارے خون میں داخل ہونے کی اجازت کس نے دی؟ جی تو چاہتا ہے اپنی سانس کی نالیوں میں پھنسا دھواں، واپس اُسی خاکی جیپ کے منہ پر دے ماروں ؛ بلغم تھوک کے رہ جاتا ہوں!

میرا دفتر سینٹرل چوک کے عین سامنے، ٹرسٹ پلازہ کی تیسری منزل پر واقع ہے۔ سینٹرل چوک کو اس شہر کا مرکز سمجھ لیں۔ سنا ہے کبھی اِس کے عین وسط میں ایک چبوترہ سا بنا ہو ا تھا، جس پرمجرموں کو اوندھا لٹا کر، سرِ عام کوڑے لگائے جاتے تھے۔ پورا شہر تماشا دیکھتا تھا۔ کچھ لوگ توکہتے ہیں اِس چبوترے پر پھانسیاں بھی دی جاتی رہیں۔ ایک کم سن لڑکے کو محض اِس لیے پھانسی کے تختے پر لٹکادیا گیا کیونکہ اُس کے سکول کے بستے سے کچھ مقدس اوراق بر آمد ہوئے تھے۔

پورے شہر نے نہایت عقیدت اور اِنہماک سے اُس کی موت کا منظر دیکھا، ڈھول پیٹے، تالیاں بجائیں، نعرے لگائے۔ کہا جا تا ہے اس کے بعد کئی روز تک زرد ہواؤں کے جھکڑ چلتے رہے تھے۔ پھر آسمان سے چھپکلیوں کی بارش ہوئی اور مطلع صاف ہو گیا۔ میں سنی سنائی باتوں پر زیادہ یقین نہیں کرتا، میری بیوی تو کہتی ہے میں دیکھی دکھائی باتوں پر بھی زیادہ یقین نہیں کرتا۔ اِس لیے عین ممکن ہے ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہو۔ سب جھوٹ ہو!

ٓ آج سے تقریباً دس ماہ پہلے اِسی سینٹرل چوک پرایک بم بلاسٹ ہوا تھا۔ خدا کا شکر ہے میری فیملی بال بال بچ گئی۔ ڈیڑھ گھنٹہ روڈ بلاک رہا۔ ہم بھی ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے۔ واپسی پر میرے بیٹے نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سائن بورڈ پر چپکا، گوشت کا لوتھڑا دیکھ لیا تھا۔ پورا ایک مہینہ نیند میں ڈر کے جاگتا رہا!

میں نے کسی کو بتایا نہیں مگر مجھے بھی ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ بستر پر لیٹتے ہی، بلب کے بجھتے ہی، اذیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہو جا تا ہے۔ پیروں سے خون رسنے لگتا ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا جاتا ہے، سانسیں حلق میں اٹک جاتی ہیں، بدن کے ہر ایک مسام سے پسینہ بہہ اٹھتا ہے، ٹانگوں کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں، جسم جھٹکے کھانے لگتا ہے۔ سفاک قاتلوں کا ایک گروہ میرے تعاقب میں ہے۔ مجھے پناہ چاہیے مگر سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں اور کوئی بھی میرے لئے دروازہ کھولنے پر تیار نہیں۔

میں ایک بند گلی میں پھنس کر ہانپنے لگتا ہوں۔ پھر اچانک ایک مہربان مگر غیر مرئی ہاتھ کا تھپیڑا، مجھے میرے ہی گھر کی چوکھٹ پر پٹخ دیتا ہے۔ میں خوف کو دیوانگی بھری دستک میں تبدیل کرتا ہوں اور پاگلوں کی طرح اپنے گھر کا دروازہ بجاتا ہوں۔ دروازے کی اوٹ سے کوئی مجھے دیکھتا توہے مگر میری مدد کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا، مجھے بچانے کی کوشش نہیں کرتا۔ میں اپنی بیوی کی اداس آنکھوں کو پہچان سکتا ہوں۔ میں اپنے حلق سے چپکی، تیز دھار چھری کا لمس محسوس کر سکتا ہوں!

روز صبح، جب میں نیند سے جاگتا ہوں تو خود پر بہت ترس آتا ہے۔ اپنی بیوی کا بدن دیکھتا ہو ں تو کراہت سی محسوس ہو تی ہے۔ گھر کی دیواریں اور دروازے خون میں رنگے دکھائی دیتے ہیں۔ سوچتا ہوں آخر یہ میرے کس جرم کی سزا ہے؟ بچپن میں ایک تیز دھار بلیڈ سے اپنی پالتو بلی کی دم کاٹ دی تھی۔ ہو سکتا ہے یہ اُسی دم کاٹنے کی سزا ہو!

یہ بھی تو ہو سکتا ہے یہ میرا انفرادی مسئلہ نہ ہو۔ ہو سکتا ہے اِس شہر کا ہر آدمی اپنے اندر ایک جہنم چھپائے پھرتا ہو۔ ہو سکتا ہے یہ ہمارے بزر گوں کے کسی اجتماعی جرم کی سزا ہو۔ ہو سکتا ہے ہمیں نسل درنسل فریب کی افیون زدہ گولیاں کھلا کر نشے میں دُھت رکھا گیا ہو۔ ہو سکتا ہے جنہوں نے سینٹرل چوک کے چبوترے پر اوندھے لیٹ کر کوڑے کھائے ہوں، وہی بے گناہ ہوں، باقی سب مجرم ہوں!

سینٹرل چوک اب چند ہی قدموں کے فاصلے پر ہے۔ چوک کے دائیں جانب ایک راستہ ہے جو سیدھا میرے دفتر کو جاتا ہے۔ چوک کے بائیں جانب بھی ایک راستہ ہے مگر اس راستے کو ایک دیو ہیکل کرین کھڑی کر کے بلاک کر دیا گیا ہے۔ فیصلہ ہو چکا۔ ہمیشہ کی طرح میں نے چوک کی دائیں سمت کا انتخاب کیا ہے۔ فیصلے کا طبل بجتے ہی ایک کریہہ الصورت بوڑھا، جس کے ننگ دھڑنگ بدن پر ایک میلی سی دھوتی کے سوا کچھ بھی نہیں، میری جانب یوں لپکتا ہے جیسے کب سے گھاٹ لگائے بیٹھا ہو۔

میں اُس کی آنکھوں میں چھپا انتظار دیکھ کر سہم جاتا ہو ں، وہ میری آنکھوں میں چھپا خوف دیکھ کر مسکرا اٹھتا ہے۔ اُس کی مسکراہٹ میں کئی راز پوشیدہ ہیں، بہت سے بھید چھپے ہیں۔ خوف کی ایک پھریری سی اُٹھتی ہے اور میرا بدن سن ہو جا تا ہے۔ میں واپس سینٹرل چوک کی طرف بھاگتا ہو ں۔ میں اس ہرن کی طرح دوڑتا ہوں جس نے اپنے تعاقب میں آنے والے بھیڑئیے کی بو پہچان لی ہو۔ سامنے ہی ایک چبوترہ ہے جس کے عین وسط میں ایک سات آٹھ برس کا بچہ، سکول کا بستہ لیے کھڑا ہے۔ اِس سے پہلے کہ میں اپنے حلق کی پوری قوت سے چلا اٹھوں، ایک خاکی رنگ کی جیب نمو دار ہوتی ہے اور اپنا گاڑھا اور بد بودار دھواں میرے پھیپھڑوں میں اُنڈیل دیتی ہے۔

شہر کا ہر راستہ سینٹرل چوک سے ہو کر نکلتا ہے۔ سینٹرل چوک سے نکلنے والے ہر راستے پریہی ایک منظر ہے۔ نو بج کر سات منٹ ہوئے ہیں۔ موبائل کی رنگ ٹون مسلسل بج رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).