جمہوریت مخالف بیانیے اور زمینی حقائق


ہم اکیسویں صدی کے 19 ویں برس اور آزادی کے ساتویں عشرے میں داخل ہو چکے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ملکی مسائل وقت کے ساتھ ساتھ حل ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ پوری دنیا آج ایک واضح آئینے کی طرح ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ انسانی تاریخ، مسائل، جدوجہد اور نتائج و ثمرات ہمارے سامنے اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ آج تک متعارف کروائے جانے والے نظام ہائے حکومت میں جمہوریت ہی اب تک کا بہتر نظامِ حکومت ہے مگر ہم زبردستی اپنے معاملات کو الجھانے میں مصروف ہیں۔ آج بھی اس آزمودہ اورمفید نظام کے بارے میں ایک بڑی اکثریت الجھن بُننے کی کوشش میں پائی جاتی ہے تاکہ عوام کو ذہنی طور پر کئی دھڑوں میں بانٹ کر اُن کی طاقت اور حقوق کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس کے لئے سب سے آسان راستہ جمہوریت کو اسلام مخالف اور مغربی نظام یا کفر کا نظام قرار دینا ہے۔

سب سے پہلے ایسے احباب کے لئے ہم پل بھر کو قرآنِ حکیم و فرقانِ حمید کی سورۃ ٔ شوریٰ کو دیکھ لیتے ہیں۔ اِس سورۃٔ مبارکہ کا وقتِ نزول وہ ہے جب یہ واضح نظر آنے لگا تھا کہ اب مسلمانوں کو حکومت ملنے والی ہے تو اِس سورۃٔ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کے اوصاف بتاتے ہوئے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ۔ ”و اَمرُہُم شوریٰ بینَہُم“ یعنی ”اور وہ اپنے معاملات“ باہمی مشورے ”سے طے کریں گے“۔ یہاں کسی قسم کی تخصیص بیان نہیں فرمائی گئی بلکہ رائے کے اعتبار سے سب کو یکساں حق حاصل ہو گا۔ اور اسی کو اصول کی شکل میں جمہوریت کہا جاتا ہے، یعنی جمہوریت کوئی مغربی تحفہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے وضع کیا گیا اصول ہے۔ آپ ؐ سے لے کر خلفائے راشدین تک تمام حکومتیں اسی اصول پر کھڑی نظر آتی ہیں۔

جب ایک عام آدمی اٹھ کر حضرت عمر بن خطاب ؓ سے پوچھے کہ آپ کے پاس دو چادریں کہاں سے آئی ہیں تو یہ جمہوریت کہلاتی ہے۔ جب خلیفۂ وقت اور غلام باری باری سواری کرتے اور باری باری پیدل چلتے ہیں تو اسے جمہوریت کہتے ہیں۔

دوسرے نمبرپر وہ الجھن بُننے والے صاحبان ہیں جو افلاطون کی طرز پر جمہوریت کو سوچتے ہیں۔ افلاطون چونکہ خود فلسفی تھا تو اس کے نزدیک ریاست کی باگ ڈور فلسفیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے کیونکہ فلسفی ہی ریاست چلانے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ وہ کبھی ناخواندہ یا نسبتاً کم پڑھے لکھے عوام کو رائے دینے یا رائے رکھنے کے قابل ہی نہیں سمجھتے بلکہ اسے جمہوریت کا نقص بتاتے نہیں تھکتے کہ جنہیں کچھ شعور ہی نہیں، وہ کیا حکمران چنیں گے؟ حوالے کے طور پر ڈاکٹر محمد اقبال کے اشعار پڑھ کر سنا دیں گے۔ مثلاً

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

 گزارش ہے کہ اوّل تو حکیم الامت خود برصغیر کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے نہ صرف رکن بلکہ سربراہ بھی رہے جو کہ خالصتاً جمہوری عمل کے ذریعے اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہی تھی اور خود انہوں نے خطبۂ الہٰ آباد میں فرمایا کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی ”اکثریت“ ہے ان صوبوں پر مشتمل ایک الگ ریاست بنائی جانی چاہیے۔ اب یہاں اکثریت تولنے کے اصول پر تھی یا گننے کے اصول پر؟ دوئم اگر بندوں کو تولنا بھی ہوگا تو آخر کون سا ترازو استعمال کیا جائے گا؟

جمہوریت بذاتِ خود انسانوں کو تول کر ہی سامنے لاتی ہے مثلاً انسانوں کو تولنے کے لئے اس سے اچھا ترازو کیا ہو گا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ کسی انسان کے ساتھ کتنے انسان ہیں۔ اور جب جب اور جہاں جہاں جمہوریت کے اس ترازو کو مسخ کیا جاتا ہے یعنی عوامی رائے کی بجائے کسی اور طریقے سے حکمران مسلط کیے جائیں یا انسانوں کے ساتھ ہونے کے دکھاوے کا ڈرامہ رچایا جائے تو نتائج مسائل کی صورت میں ناچنے لگتے ہیں۔

یہاں ایک طبقہ اور ہے جو شہروں میں جا بسنے اور چند نصابی کتب پڑھ لینے کے بعد دیہات اور دور دراز علاقہ جات میں بسنے والے سادہ لوح انسانوں کو بڑی شد و مد سے رگیدتا نظر آتا ہے۔ عام مجالس سے لے کر میڈیا تک ایسے نابغے بڑے طمطراق سے یہ فرماتے پائے جاتے ہیں کہ دیہاتیوں کو کیا عقل کہ ووٹ دینے سے قبل کن کن خصوصیات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ کسی امیدوار کی اہلیت دیکھنے کی بجائے محض برادری اور مقامی تعلقات کی بنیاد پر ووٹ دے دیتے ہیں اور پھر اس عمل کو بھی جمہوریت جیسے کامیاب ترین نظام کے نقص کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ایسے افلاطونوں کی خدمت میں صرف یہی گذارش ہے کہ جنہیں آپ ڈھکے چھپے الفاظ میں بے وقوف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ آپ جیسے نام نہاد پڑھے لکھوں سے کہیں زیادہ فہم شعور اور ادراک رکھتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ آئین کو بار بار روندنے، شب خون مارنے اور کٹھ پتلیوں کے تماشوں کی وجہ سے نظام میں وہ سکت ہی نہیں کہ جب ان پر کوئی پریشانی یا مصیبت آن پڑے گی تو نظمِ اجتماعی ان تک پہنچے گا۔ وہ جانتے ہیں اور پورے فہم اور شعور کے ساتھ اپنی مقامی برادریوں اور اربابِ اختیار سے جڑے رہتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ جب بھی انہیں ضرورت ہوگی تو ان کی برادری اور مقامی لوگ ہی ساتھ کھڑے ہوں گے۔

بنیادی مسئلے سے چشم پوشی اور ڈھٹائی کے باعث وطنِ عزیز کو ہمیشہ بے شمار مسائل نے گھیرے رکھا ہے۔ مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، دہشت گردی، کرپشن اور نا انصافی سرِ فہرست ہیں۔ میری ناقص فہم کے مطابق غربت بذاتِ خود مسئلہ نہیں بلکہ کچھ مسائل کا نتیجہ ہے۔ مثلاً ہم اپنے خاندانی حجم کا تعین کرتے وقت اپنے مسائل اور وسائل پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں صرف آبادی میں بڑھوتری ہی ہمیں اگلی کئی صدیاں پسماندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ پھر تعلیم یا تو ہماری ترجیح نہیں یا پھر ہماری بساط میں نہیں اور اگریہ دونوں ہیں بھی تو اس کا واحد مقصد افسری ہے۔ ہم ”الکاسبُ حبیب اللہ“ پر بھی یقین رکھتے ہیں لیکن زمینی سچائی یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے والے کو ہم نہ صرف ”کمّی“ کہتے ہیں بلکہ اگر اس کی اولاد میں سے کوئی اعلیٰ تعلیم حاصل کر بھی لے تو بھی ہم اسے اس کے اجداد کی نسبت سے دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔

اب جب 10 لوگوں کے خاندان کا کفیل ایک ہوگا، ہنر مندی اور محنت کو نظر انداز کیا جائے گا، خواتین کی تعلیم کو غیر ت اوربے غیرتی سے کے حوالوں سے دیکھا جائے گا تو ان مسائل کا نتیجہ سوائے غربت کے کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم مسائل کو ختم کیے بغیر ان کے نتائج تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہی معاملہ بے روزگاری اور اسی قبیل کے دوسرے مسائل کے ساتھ ہے۔ دیگر تمام مسائل اس وقت تک کسی نہ کسی شکل میں ہم سے چمٹے رہیں گے جب تک ہم بنیادی مسئلے کو طے نہ کرلیں اور وہ ہے کہ اس ریاست پر حقِ حکمرانی کسے حاصل ہے؟ اسلام، فلسفہ، منطق اور انسانی عقل، گویا ہر حوالے سے حکمرانی کا حق اور اپنے حکمران چننے کا حق صرف اور صرف عوام کا ہے۔ جب تک اسے عمل میں نہیں لایا جائے گا تو دیگر مسائل کا حل ایسے ہی ہوگا جیسے کسی اور فارمولے سے کسی اور سوال کو حل کرنے کی سع ئی لاحاصل کر رہے ہوں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صدیوں کی غلامی کاٹنے کے بعد شاید ایک ایسا ہجوم بن کر رہ گئے ہیں جو صرف خود پر مسلط ہونے والوں کی نہ صرف عزت کرتا ہے بلکہ انہیں ہیرو بھی تسلیم کرتا ہے۔ ہمیں شاید آسانی سے دھڑوں میں بانٹا جا سکتا ہے اور اس تمام عمل کے پیچھے چند فیصلہ کن طاقتوں کی عشروں کی محنت کارفرما ہے۔ تعلیمی نصاب سے لے کر میڈیا تک اس بات کی ترغیب اور تعلیم دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ کہ ہم چائے خانہ سے لے کر بڑی بڑی مجالس تک میں خود نہ صرف اپنے حقِ حکمرانی (جمہوریت) کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اُس سے بے زار بھی نظر آتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وطنِ عزیز کا آئین اس ملک کے عوام کو اپنے نمائیندے چننے کا حق دیتا ہے۔ اور ریاست کے تمام ستونوں اور اداروں کی حدود اور دائرۂ کار کا تعین کرتا ہے اور اگر ہم نے اس آئین کو تسلیم ہی نہیں کرنا اور اپنے اپنے دائرے میں نہیں رہنا تو پھر ہمیں یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ صوبائی اکائیاں اسی آئین کے تحت اس وفاق کا حصہ ہیں۔ اگر آئین کی حیثیت کو بے اثر کر دیا جائے تو پھر کس اخلاقی یا قانونی بنیاد پر اپنی اکائیوں کو آپس میں بندھے رہنے اور اپنے آئین کی پاسداری کرنے پر قائل یا آمادہ کر سکیں گے۔ پھر تو صرف مجبور کرنے کا راستہ بچے گا اور تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں کو بہت دیر تک مجبور نہیں کیا سکتا۔

اگر سوال کو واقعتا حل کرنا ہے تو سب سے پہلے درست فارمولے کو اپلائے کرنا پڑے گا۔ ہم عوام جب تک اپنی عزت خود نہیں کریں گے کسی بھی طاقتور کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں عزت دے۔ جب درست فارمولے پر عمل پیرائی ہو گی تو پھر کوئی ہمارا استحصال نہیں کر پائے گا، پھر غربت، بیروزگاری، جہالت اور نا انصافی کا خاتمہ کرنا حکمران کی مجبوری ٹھہرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).