مستنصر حسین تارڑ, میجر میتھیو اور بیٹے کی قبر


پڑھتے ہوئے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جو چیز سب سے زیادہ بور لگ رہی ہوتی ہے بعد میں صرف وہی یاد رہ جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے، وہ بے شک بچپن سے کتابیں پڑھتے چلے آئے ہوں لیکن یاد انہیں کچھ بھی نہیں رہتا۔ بات چیت کے دوران اگر کوئی یاد دلائے یا کسی خاص واقعے کا ذکر کرے تو انہیں دھیرے دھیرے یاد آنے لگتا ہے، جب تمام بات چیت ختم ہو جاتی ہے تب جا کر پورا واقعہ یاد آتا ہے لیکن اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ چند دن پہلے ایک خبر پڑھی جو ایک قابل اعتبار آن لائن اخبار پر تھی۔

خبر یوں تھی کہ جنگ میں ایک نوجوان فوجی ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کے بوڑھے ماں باپ اس کی قبر دیکھنے کے لیے کہیں دوردراز سے سفر کرتے ہوئے پہنچتے ہیں، ماں کے انٹرویو کا ایک جملہ تھا جو تیر کی طرح دل کو لگا، ’میں دیکھنا چاہتی تھی کہ میرے بیٹے نے آخری سانسیں کہاں لی ہوں گی۔‘

\"Mathew1\"

یہ چھوٹی سی خبر پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ سب کچھ پہلے کہیں ہو چکا ہے۔ اسی نوعیت کی خبر یا کوئی تحریر پہلے پڑھنے میں آئی ہے مگر یاد نہیں آتی۔ کئی دن گزر گئے، آج اچانک ایک جھماکا سا ہوا اور ’نکلے تیری تلاش میں‘ کے ابتدائی باب یاد آ گئے۔ زندگی کی پہلی چند کتابوں میں سے ایک کتاب تھی۔ پانچویں چھٹی جماعت کا بچہ کیا پڑھے گا اور کیا سمجھے گا، بس ملک ملک کے قصوں کا شوق تھا اور کچھ یہ شوق کہ چاچا جی لکھتے بھی ہیں تو انہیں پڑھا کیوں نہ جائے، اس چکر میں ابا کی الماری میں سے کتاب اٹھا لی۔ دو چیزیں اب اچانک یاد آئیں۔ پہلا منظر تو وہ جب تارڑ صاحب اپنے کسی دوست علی کے ساتھ ایک ٹرک کی چھت پر لیٹے سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں اور ٹرک کہیں افغانستان وغیرہ کے روٹ پر جا رہا ہوتا ہے تو اچانک انہیں یاد آتا ہے کہ یہ ٹرک جس میں انہوں نے لفٹ لی ہے، یہ تو وہ ہے جس میں پٹرول ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا ہے اور وہ ٹینکی کے عین اوپر سگریٹ سلگائے ہوئے ہیں اور پھر ایک دم بوکھلا کر سگریٹ پھینک دی جاتی ہے۔

دوسرا منظر بالکل اس خبر کی طرح تھا۔ تارڑ صاحب کی بس ترکی کے تنگ اور ٹیڑھے میڑھے پہاڑی راستوں سے گزر رہی ہوتی ہے، وہ خطرناک راستوں سے خوف زدہ بیٹھے ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھ لگ جاتی ہے اور اچانک ایک نیا سین شروع ہو جاتا ہے۔ دو سرخ و سفید بوڑھے مرد عورت کسی بس میں بیٹھے ہوئے ہیں، جھریوں بھرے چہروں سے تھکن عیاں ہے۔ اچانک ایک سفید فام سیاح بس کو روکتا ہے اور اندر چڑھ آتا ہے، کنڈکٹر کے پوچھنے پر کہتا ہے کہ جہاں بس جائے گی سمجھو وہاں میں بھی جا رہا ہوں۔ اس کا شوق آوارگی دیکھ کر عورت کو اپنا بیٹا یاد آ جاتا ہے کہ اسے بھی ایسے ہی دیس دیس گھومنے کا شوق تھا، اور ایسے ہی ایک سفر میں وہ حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گیا تھا۔ اس دوران بس خراب ہو جاتی ہے۔ آگے سفر کے لیے کچھ نہیں ملتا تو وہ دونوں پیدل روانہ ہو جاتے ہیں۔ مرد بے چارہ سامان گھسیٹتا ہوا تھکا ہارا چلا جاتا ہے، عورت اس کے پیچھے پیچھے ہوتی ہے، ریت والی ہوا، ویرانی اور بس وہ دو مسافر چلے جا رہے ہوتے ہیں۔ باپ (مرد) یاد کر رہا ہوتا ہے کہ اپنے بیٹے کو اس نے جانے سے کیسے روکا تھا مگر بیٹے نے یہ کہہ کر چپ کرا دیا تھا کہ موت تو کہیں بھی آ سکتی ہے۔ پھر موت واقعی میں آ جاتی ہے لیکن ترکی کی ایک سڑک پر آتی ہے۔ اب یہ دونوں مرد عورت، اس لڑکے کے ماں باپ اس کی قبر دیکھنے کو سفر کر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک کتبہ ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی قبر پر لگانا ہے۔ پاکستان سے یہ سنگ مرمر کا کتبہ لے کر وہ لوگ ترکی جا رہے ہیں۔ پھر لوگوں سے پوچھ پاچھ کر معلوم ہوتا ہے کہ قبر نیچے گھاٹی میں ایک ندی کے کنارے بنی ہوئی ہے۔ جب دونوں پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قبر گذشتہ دنوں آنے والے سیلاب میں بہہ چکی ہے۔ اور وہاں لڑکے کی ماں کا وہ ڈائیلاگ ہوتا ہے جو مرتے دم تک یاد رہے گا؛

’بہہ گئی، لیکن میانی صاحب میں تو اتنی قبریں ہیں، ان کو کچھ نہیں ہوتا اور اس پوری وادی کی صرف ایک قبر بہہ گئی۔‘ باپ اسے خاموش کراتا ہے اور سفید پتھر کی سل جس پر لڑکے کا نام ہوتا ہے،اسے ندی میں پھینک دیتا ہے، ’اب یہ ندی ہی اس کی قبر ہے۔‘

تو پانچویں چھٹی جماعت کے بچے کو پوری کتاب بھول گئی اور یہی واقعہ یاد رہ گیا جو اس وقت کمال کا بور لگا تھا۔ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ یہ سین کیوں شروع ہوا اور کیسے ختم ہو گیا، اور اس کے لکھنے کی ایسی خاص کیا ضرورت تھی۔ لیکن آج، وہی بچہ یہ اقرار کر رہا ہے کہ تارڑ صاحب، تسی گریٹ او!

تحریر کا کمال یہ ہے کہ پڑھنے والے کے ذہن میں ایسے چپکے کہ اسے خود بھی یاد نہ رہے اور کسی ایک دن، کوئی ایک خبر پڑھنے پر لاشعور اسے چپکے سے نکال کر اس کے سامنے پٹخ دے۔ میتھیو برطانوی فوج میں میجر تھے جو 2005 میں اس وقت ہلاک ہوِئے جب ان کا فوجی دستہ سڑک کے کنارے لگے بم کی زد میں آیا۔ وہ عراق جنگ میں بھیجے گئے برطانوی فوجی دستوں میں سے ایک کا حصہ تھے۔ ان کے ماں باپ کو گیارہ برس کا انتظار کرنا پڑا۔ اس مقام پر پہنچنے کے لیے کہ جہاں ان کا لعل دفن تھا، گیارہ برس انتظار۔ جنگ بہت خوفناک ہوتی ہے۔ نہ مذہب دیکھتی ہے، نہ رشتے، نہ ہی وعدوں کا پاس رکھنے دیتی ہے۔ گیارہ برس کے بعد وہ بوڑھے ماں باپ جین اور بیکر اپنے بیٹے کی قبر پر پہنچتے ہیں جو بصرہ میں ہے۔ وہ بھی اپنے ساتھ ایک صلیب لائے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کی قبر پر جانے کس حوصلے سے رکھ دی ہے۔ پھر وہ اس قبر پر پھول دار پودے لگاتے ہیں، پھر اسے پانی دیتے ہیں اور آخر کار اپنی اولاد کو اس صحرا میں چھوڑ کر واپس روانہ ہو جاتے ہیں۔ زندگی میں کیا وہ دوبارہ کبھی اس جگہ تک پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں، انہیں اس بات کا علم نہیں ہے۔ سنہرے بالوں والی وہ خاتون اپنے شوہر کا ہاتھ تھامے بصرہ سے سر جھکائے روانہ ہو جاتی ہے۔

لاکھوں لوگ آج بھی یہ سوال پوچھتے ہیں کہ برطانیہ عراق کی جنگ میں آخر کیوں کودا تھا۔ کچھ سوال پوچھنے والے تو وہ تھے کہ جن کے بچے اس جنگ میں مارے گئے، کچھ معیشت دان یہی پوچھتے تھے، کچھ سیاست دان اور کچھ ہم آپ جیسے عام لوگ۔ سوال برطانیہ اور عراق کی جنگ کا نہیں ہے۔ سوال ہر جنگ کا ہے، ہر فساد کا ہے، ہر لڑائی کا ہے۔ ہم نے اور بھارت نے پاکستان کے قیام سے آج تک کتنی جنگیں لڑ کر دیکھ لیں، امریکہ بھی ہر جگہ منہ مار چکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی کو اتحادی ہونے کا پھل بھی بھگتنا پڑ گیا، پوری دنیا بدامنی اور فساد میں مبتلا ہو گئی، کوئی بھی، کہیں بھی محفوظ نہیں رہا چاہے وہ ترکی میں ہو، فرانس میں ہو، جرمنی میں ہو، امریکہ میں ہو یا کسی بھی ملک میں ہو۔ جو کچھ میتھیو اور ان کے ماں باپ کے ساتھ ہوا، ایسا ہزاروں اور ماں باپ کے ساتھ ہوا ہو گا، کل کو پھر کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ جنگ کی مخالفت اور اپنے کھولتے ہوئے خون کو قابو میں رکھنے کا ہے۔ ہمیں انفرادی سطح پر کم از کم ان لوگوں کی مخالفت ضرور کرنی ہے جو ہر وقت ہمیں اور ہمارے بچوں کو لڑنے مرنے پر اکساتے رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر ایسے عناصر کے گرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا ہے جو یقیناً ایک نیک شگن ہے لیکن بطور ایک فرد ہمیں اپنی ترجیحات بھی بدلنا ہوں گی جو آہستہ روی سے ہونے والا لیکن ایک ممکن عمل ہے اور اب ہماری توجہ چاہتا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments