دولت اسلامیہ سے ایک ہفتے میں سو فیصد علاقہ آزاد کرایا جا سکتا ہے: ڈونلڈ ٹرمپ


ڈونلڈ ٹرمپ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ سے شام اور عراق کا مقبوضہ علاقہ زیادہ سے زیادہ اگلے ایک ہفتے تک 100 فیصد ‘آزاد’ کرایا جا سکتا ہے۔

انھوں نے اپنے اتحادیوں کے اجتماع کو بتایا ’یہ اعلان کیا جانا چاہیے کہ شاید اگلے ہفتے تک 100 فیصد خلافت ہمارے پاس ہو گی۔‘

تاہم انھوں نے احتیاط کے طور پر کہا کہ وہ اس بارے میں ’سرکاری موقف کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔‘

دوسری جانب امریکی فوج اور انٹیلیجنس حکام کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کاؤنٹر ٹیررازم دباؤ کے بغیر واپسی کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’شام سے ایک ایک ایرانی جنگجو کو نکال باہر کریں گے‘

امریکہ کی شام سے واپسی ’مشروط‘ ہے

شام میں ’طاقت کے خلا‘ کو روکنے پر اتفاق

یہ روس، ایران اور شام کی اپنی لڑائی ہے: صدر ٹرمپ

واضح رہے کہ امریکی صدر نے گذشتہ برس دسمبر میں اپنے اتحادیوں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت حیران کر دیا تھا جب انھوں نے شام سے دو ہزار امریکی افواج کے انخلا کا حکم دیا۔

ان کے اس حیران کن اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی ایلچی بریٹ مک گرک مستعفی ہو گئے تھے۔

صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرز کے علاوہ اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

امریکی صدر کی جماعت رپبلکن پارٹی کے اہم سینیٹرز نے اس فیصلے پر کھل کر تنقید کی اور اسے ایک بری اور بڑی غلطی اور ایران اور روس کی فتح قرار دیا تھا۔

ٹرمپ اب دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ کو کیسے دیکھتے ہیں؟

امریکی فوج

ٹرمپ نے واشنگٹن میں بدھ کو ہونے والے کانفرنس کو بتایا ’ ان کی زمین چھن چکی ہے اور دولت اسلامیہ کی خلافت کو ختم کر دیا گیا ہے۔`

ان کا کہنا تھا ’لیکن اس گروپ کے چھوٹے حصے اب بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں اور یہ کہ غیر ملکی جنگجؤوں کو امریکہ تک رسائی نہیں ہونی چاہیے۔‘

انھوں نے دولت اسلامیہ کے اس پروپیگنڈا مشین کا بھی حوالا دیا جو یورپ اور دیگر حصوں سے جنگجوؤں کو بھرتی کرتی ہے۔

امریکی صدر کے بقول انھوں نے کچھ عرصے کے دوران انٹرنیٹ کا ہم سے بہتر استعمال کیا۔

’انھوں نے انٹرنیٹ کو شاندار طریقے سے استعمال کیا لیکن اب یہ بہت شاندار نہیں ہے۔‘

امریکی صدر نے اتحادیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ’ہم آنے والے کئی سالوں میں اکھٹے کام کر رہے ہوں گے۔‘

اس موقع پر امریکہ کے وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکہ شام سے فوجیوں کے انخلا کے باوجود دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی جاری رکھے گا۔

پومپیو نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کو ’شاطرانہ تبدیلی اور مشن میں کوئی تبدیلی نہ ہونا قرار دیا‘ اور کہا کہ ’دنیا مہذب جہاد کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔‘

کیا دولت اسلامیہ کو حقیقت میں شکست ہو گئی ہے؟

دولت اسلامیہ کا مشتبہ جنگجو

دولت اسلامیہ نے حالیہ مہینوں کے دوران یقیناً اپنے زیادہ تر علاقے کا کنٹرول کھو دیا ہے جس میں عراق میں موصل اور شام میں رقہ میں اس کا مضبوط گڑھ بھی شامل ہے۔

تاہم شام کے شمال مشرقی علاقے میں اب بھی لڑائی جاری ہے جہاں کردوں کی قیادت میں سیرئین ڈیموکریٹک فورسز (اس ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ انھوں نے حالیہ مہینوں کے دوران درجنوں غیر ملکی جنگجوؤں کو پکڑا ہے۔

امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف نے منگل کو سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ شام کی عراق کے ساتھ سرحد کے 20 مربع میل کے فاصلے پر کم سے کم 1500 جنگجو رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’دولت اسلامیہ کے پاس اب بھی رہنما، جنگجو، سہولت کار، ذرائع اور فحش نظریہ ہے جو ان کی کوششوں کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp