مرزا آفت بیگ اور اسقف اعظم



اندلس کے مسلمانوں پر بہت کڑا وقت تھا۔ غرناطہ میں شکست ہو چکی تھی۔ وہاں کے اسقف اعظم نے اعلان کیا کہ یہ تو سارے مسلمانوں کو عیسائی مذہب اختیار کرنا ہو گا، یا پھر تین دن کے اندر اندر انہیں ملک چھوڑنا ہو گا۔ کسی دوسرے مسلک یا مذہب کے ملک میں رہنے کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہے۔ مسلم بچارے رونے پیٹنے لگے اور شور مچانے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ آخر کار اسقف نے مجبور ہو کر اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں سے مناظرے کے لیے تیار ہے۔ وہ اپنا ایک نمائندہ منتخب کر لیں۔ اگر مسلم مناظرہ جیت گئے تو وہ رہ سکتے ہیں ورنہ انہیں جانا پڑے گا اور عیسائیت اختیار کرنا ہوگی۔

مسلمانوں میں شدید سراسیمگی پھیل گئی۔ کوئی مقامی مسلمان اس طرح کھلم کھلا سامنے آ کر اسقف کو ہرانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ اور اگر نہ ہراتا تو پھر سب مسلمانوں پر بہت برا وقت آنے والا تھا۔ اسی اثنا میں بخارے سے تعلق رکھنے والا ایک مسلمان جو کہ کپڑے کی تجارت کے سلسلے میں اندلس گیا ہوا تھا، بولا، میں تیار ہوں۔ بخارا سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میرا علم بہت ہے۔ اور میرا جذبہ میرے علم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورت حال تھی۔ سو اندلسی مسلمانوں نے مرزا آفت بیگ کو نمائندہ مقرر کر دیا۔ اب ایک اور مشکل آ کھڑی ہوئی۔ اسقف صرف لاطینی اور ہسپانوی زبان میں بات کر سکتا تھا اور مرزا آفت بیگ صرف تاتاری یلغاری زبان کے ماہر تھے۔ سو حل یہ نکالا گیا کہ یہ ایک خاموش مناظرہ ہو گا۔ کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

وقت مقررہ پر اسقف اعظم اور مرزا آفت بیگ آمنے سامنے آ گئے۔ ایک منٹ تک مکمل خاموشی طاری رہی۔ پھر یکایک اسقف نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور مٹھی بند کرلی۔ پھر اس نے تین انگلیاں آسمان کی طرف بلند کیں۔ مرزا آفت بیگ یہ دیکھ کر بہت تلملائے اور مکہ لہرا کر ایک انگلی فضا میں بلند کرلی۔

یہ دیکھ کر اسقف نے ایک انگلی اپنے سر کے گرد گھمائی۔ مرزا آفت بیگ کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ انہوں نے جھٹ ایک انگلی سے اپنے قدموں کی طرف اشارہ کیا اور پاؤں پھیلا کر کھڑے ہو گئے۔

یہ دیکھ کر اسقف ہکابکا رہ گیا۔ لیکن پھر اس نے اپنے تھیلے سے ایک روٹی نکالی اور اسی سے ایک گلاس نکال کر اس میں وائن بھر لی اور ایک لقمہ لے کر ایک گھونٹ بھرا۔ یہ دیکھ کر مرزا آفت بیگ نے اپنے تھیلے سے ایک سیب نکالا اور اسقف کو دکھا دکھا کر کھانے لگے۔ یہ دیکھ کر اسقف اعظم کھڑا ہو گیا اور کہا کہ میں ہار مانتا ہوں۔ مرزا آفت بیگ بہت کائیاں اور چالاک ہیں اور مناظرے میں انہیں ہرانا ناممکن ہے۔ مسلم اندلس میں رہ سکتے ہیں۔

وہ اٹھ کر گرجے کے اندرونی حصے میں چلا گیا جہاں پادریوں نے اسے گھیر لیا اور اس سے ان سوالات اور جوابات کے بارے میں پوچھنے لگے۔ اسقف نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں نے اسے تین انگلیاں دکھا کر تثلیث کے بارے میں بتایا۔ اس نے ایک انگلی بلند کی اور مجھے یاد دلایا کہ ہم دونوں کے مذاہب ایک ہی خدا کے ماننے والے ہیں۔ میں نے اپنے ارد گرد انگلی گھما کر اسے کہا کہ خدا ہمارے ارد گرد موجود ہے۔ اس نے زمین کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ بالکل۔ ارد گرد نہیں، بلکہ ہمارے درمیان یہیں موجود ہے اور سب دیکھ رہا ہے۔ اس پر میں نے اسے مقدس روٹی اور وائن نکال کر دکھائی کہ یسوع مسیح نے اپنے گوشت اور خون کی قربانی دے کر ہمیں تمام گناہوں سے پاک کر دیا ہے۔ اس پر اس نے سیب نکال کر مجھے دکھایا اور اسے کھانے لگا۔ یوں اس نے مجھے یاد دلایا کہ حضرت آدم اور اماں حوا کا گناہ حقیقی ختم نہیں ہوا اور ہمیں کھاتا جا رہا ہے۔ میرے ہر سوال کا اس نے ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ میرے پاس ہار ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

دوسری طرف مسلمانوں میں جشن ہو رہا تھا اور مرزا آفت بیگ پر ہر ایک شخص نثار ہوا جا رہا تھا۔ آخر ایک عالم نے پوچھ لیا کہ مرزا صاحب، ، کیا ماجرا گزرا ہمیں بھی تو کچھ بتائیں۔

مرزا آفت بیگ بولے

پتہ نہیں کہ کیا ماجرا ہوا ہے۔ پہلے اس نے مجھے تین انگلیاں دکھا کر کہا کہ تین دن کے اندر سارے مسلمان یہاں سے نکل جائیں گے۔ اس پر میں نے ایک انگلی بلند کر کے کہا کہ ایک مسلمان بھی یہاں سے نہیں نکلے گا۔ اس پر اس نے ارد گرد اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ارد گرد کا سارا علاقہ وہ ہم سے خالی کرا لے گا۔ میں نے زمین کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہم یہیں رہیں گے۔

پھر کیا ہوا؟ مجمع چلایا۔

مرزا آفت بیگ بولے، پتہ نہیں۔ اس نے اپنا کھانا نکالا اور مجھے دکھا دکھا کر کھانے لگا اور میں نے اپنا کھانا نکال کر اسے للچا للچا کر کھانا شروع کر دیا۔

نوٹ: آپ تو خیر باشعور ہیں لیکن بعض افراد اسے مزاح کی بجائے تاریخ سمجھنے پر مصر ہوں تو ان سے عرض ہے کہ ان کے لیے یہ تاریخ ہی ہے۔
بدیسی مزاح سے درآمد شدہ ایک حکایت کا دیسی پیرایہ۔
Jul 16, 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments